کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 326
6۔ لفظ امام، خلیفہ اور امیر المومنین کا ترادف:
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’امام المسلمین کو خلیفہ، امام اور امیر المومنین کہنا جائز ہے۔‘‘[1]
ابن خلدون فرماتے ہیں:
’’چونکہ میں نے اس منصب کی حقیقت کو واضح کردیا اور بتا دیا کہ سیاست دنیا و حفاظتِ دین کے لیے صاحبِ شریعت کی نیابت کو خلافت و امامت کہا جاتا ہے، اس لیے اس منصب کے سنبھالنے والے کو خلیفہ اور امام کہا جائے گا۔‘‘[2]
ابن منظور نے خلافت کی تعریف امارت سے کی ہے۔[3]
متاخرین میں سے ابوزہرہ نے خلافت اور امامت کبریٰ دونوں الفاظ میں ترادف کی نوعیت کی تفسیر اس طرح کی ہے: خلافت کو خلافت اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو شحص اس منصب کو سنبھالتا ہے، اور مسلمانوں کا سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے، وہ لوگوں کے معاملات کی تدبیر و تنظیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوتا ہے، اسی کا نام ’’امامت‘‘ بھی ہے، اس لیے کہ ’’خلیفہ‘‘ ہی کو ’’امام‘‘ کہا جاتا تھا اور اس کی اطاعت واجب ہوتی تھی، لوگ اس کے تابع ہوتے تھے، جیسا کہ نماز پڑھانے والے امام کے تابع ہوتے تھے۔[4]
استاذ محمد مبارک نے امام، خلیفہ اور امیر المومنین جیسے الفاظ کے سبب انتخاب کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک اور ریاست کا اسلامی مفہوم، روم اور فارس جیسی دیگر اقوام کے درمیان مروجہ شاہانہ نظام کے قدیم مفہوم سے دور رہے، اس لیے کہ دونوں کے مفہوم و معنویت میں بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے۔[5]
اسلام کے اوّلین حکمران جس طرح خلفاء کہے جاتے تھے، ائمہ بھی کہے جاتے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلمانوں نے خلیفہ کے لیے امیرالمومنین کا لقب استعمال کیا۔
’’امام‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر قائد، سردار، یا راہنما کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤﴾ (البقرۃ:124 )
’’بے شک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ کہا اور میری اولاد میں سے بھی؟ فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔‘‘
[1] روضۃ الطالبین (10/49)۔
[2] مقدمۃ ابن خلدون ص (190)۔
[3] لسان العرب (9/83)۔
[4] تاریخ المذاہب / أبوزہرۃ ص (21)۔
[5] نظام الإسلام (الحکم و الدولۃ) ص (61)۔