کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 316
خلافت علی کے اجماع پر چند اعتراضات:
1: خلافت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ، ابن عمر، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم اور ان جیسے کئی صحابہ کی ایک جماعت پیچھے رہ گئی تھی۔[1]
2: خلافت علی پر اس شرط پر بیعت ہوئی تھی کہ وہ قاتلین عثمان کو قتل کریں گے۔[2]
3: معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت نہیں کی بلکہ ان سے قتال کیا۔[3]
مذکورہ اعتراضات کے جوابات:
سابقہ سطور میں خلافت علی کی جو اجماعی حیثیت ذکر کی گئی ہے ان اعتراضات سے ان پر کوئی حرف نہیں آتا اور نہ ہی دونوں میں کوئی ٹکراؤ ہے، کیونکہ یہ اعتراضات مختلف وجوہ سے مردود ہیں۔
پہلا جواب:…مستند روایات کے بالمقابل معترضین کا یہ دعویٰ یکسر غلط ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت بیعت کرنے سے پیچھے رہ گئی تھی۔ صحیح بات یہ ہے کہ خلافت پر بیعت کرنے سے کوئی پیچھے نہ رہا، البتہ چند صحابہ جن کے نام معترض نے ذکر کیے ہیں بعد کی کارروائی میں عملاً آپ کی مدد میں شرکت کرنے سے پیچھے رہے، اس لیے کہ یہ اجتہادی مسئلہ تھا، جس میں ہر ایک اپنی رائے کو صحیح سمجھ رہا تھا، اور اسی کے مطابق تعاون یا عدم تعاون میں شرکت کرتا تھا۔[4] ابن خلدون کا یہ کہنا کہ شہادت عثمان کے وقت صحابہ کرام مختلف شہروں میں منتشر تھے، اس لیے سب لوگ بیعت علی میں شرکت نہ کرسکے، جو موجود تھے ان میں سے کچھ لوگوں نے کیا، اور کچھ لوگ اس انتظارمیں رک گئے کہ سب لوگ جمع ہوجائیں اور سعد بن ابی وقاص، سعید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم جیسے کسی بزرگ صحابی کی امامت پر متفق ہوجائیں وغیرہ وغیرہ،[5] تو یہ بات ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ کی مبالغہ آمیزی ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اوّل روز کی بیعت کو ابن سعد، ابن حبان اور ذہبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔[6] اسی طرح بقیہ لوگوں نے بھی اسی دن بیعت کی جیسا کہ میں نے مدینہ کے حاضرین صحابہ کے اجماع میں اسے تفصیل سے لکھا ہے اور خود یہی ابن خلدون عصر صحابہ کے بعد مدینہ میں سکونت کرنے والے تابعین کا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کے منعقد ہونے اور تمام مسلمانوں پر لازم ہونے پر اجماع نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ میں نے یہاں ابن خلدون کی بات اس لیے نقل کردی ہے کہ بہت سے مؤلفین ومقالہ نگاران نے بعد میں ان کی پہلی ہی بات پر اعتماد کیاہے۔
دوسرا جواب:…خلافت کا انعقاد اور امام کا وجود ایسی واجبی ذمہ داری ہے جس کی فوری تکمیل سے کسی مسلمان کو جائے فرار نہیں۔ پس امت کے ہر فرد کے جمع ہونے اور سب کی اتفاق رائے معلوم کرنے تک نظام
[1] العواصم من القواصم ص (146، 147)۔
[2] العواصم من القواصم ص (145)۔
[3] عقیدۃ أہل السنۃ و الجماعۃ فی الصحابۃ (2/695)۔
[4] التمہید / الباقلانی ص (233، 234) العواصم من القواصم ص (147)۔
[5] المقدمۃ ص (214)۔
[6] الطبقات (3/31) الثقات (2/268) دول الإسلام (1/14)۔