کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1181
ان کے دلوں کو اس طرح پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔[1] چنانچہ ایک روایت کے مطابق اس دعا کے صرف تین دن بعد آپ شہید کردیے گئے (اللہ آپ پر رحم فرمائے)۔ [2]
سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آج رات خواب میں میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی امت سے مجھے کن کن جھگڑوں اور ٹیڑھے پن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ادع علیہم‘‘ ان پر بددعا کرو، تب میں نے یہ دعا کی ہے، کہ اے اللہ! مجھے ان کے بدلہ ان سے کہیں اچھے انسانوں کو ساتھی دے دے اور انھیں میری جگہ پر مجھ سے بھی برا حاکم دے دے۔ حسن رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر آپ باہر نکلے اور ایک آدمی نے آپ کو شہید کردیا۔[3]
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو اپنی شہادت کا علم تھا:
بعض احادیث نبویہ کہ جن کا شمار دلائل نبوت میں ہوتا ہے ان سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر کھڑے تھے، آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر ( رضی اللہ عنہم ) بھی تھے، چٹان ہلنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِہْدَاْ فَمَا عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیْقٌ أَوْ شَہِیْدٌ۔)) [4]
’’تھم جا اے حرا، تیرے اوپر کوئی نہیں ہے مگر نبی یا صدیق یا شہید۔‘‘
علاوہ ازیں اس سلسلہ میں دوسری مخصوص احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عراق کی سرزمین میں شہید کیے جائیں گے، نیز یہ کہ کس طرح آپ کو شہید کیا جائے گا۔ پس نبوی پیشین گوئی کے مطابق تمام حادثات کا پیش آنا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے سب سے معتبر دلائل ہیں اور اس بات پر واضح ثبوت ہیں کہ آپ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کہتے، بلکہ اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آپ کو جن باتوں کا حکم دیتا ہے وہی فرماتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ان حالات و حوادث سے آگاہ کردیا تھا جو انھیں پیش آنے والے تھے اور علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشین گوئیوں پر آمنا و صدقنا بھی کہا تھا، گاہے بگاہے لوگوں سے اس کا ذکر بھی کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ عراق میں اس سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: جسے ابوالاسود الدولی یوں بیان کرتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں سفر کے لیے سواری کی رکاب میں اپنے قدم ڈال چکا تھا کہ اتنے
[1] تاریخ الطبری (6/56)۔
[2] التاریخ الصغیر / البخاری (1/41) خلافۃ علی بن أبی طالب ص (431)۔
[3] مصنف عبدالرزاق (10/154) اس کی سند صحیح ہے۔ الطبقات (3/4) اس کی سند صحیح ہے۔
[4] الآحاد والمثانی /ابن أبی عاصم (1/37) اس کی سند حسن ہے۔ خلافۃ علی (432)۔