کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1180
میرے زیر اقتدار رہے گا اور شام ان (معاویہ) کے اور دونوں میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کے کام میں فوجی کارروائی، اچانک حملہ یا جنگ کے ذریعہ سے دخل اندازی نہیں کرے گا۔ طبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
’’40ھ میں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ بندی سے متعلق کافی خط و کتابت کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ عراق پر حاکم رہیں اور معاویہ رضی اللہ عنہ شام پر، ان میں سے کوئی کسی کے کام میں فوج، اچانک حملہ یا جنگ کے ذریعہ سے ہرگز دخل اندازی نہ کرے گا۔‘‘[1]
طلب شہادت کی دعا:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت تو کرلی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ مصالحت زیادہ دنوں تک باقی نہ رہی کیونکہ جس سال علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اسی سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز اور یمن وغیرہ میں بسر بن ارطاۃ کو فوجی کارروائی کے لیے بھیجا۔[2] بہرحال جب علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو اپنے مقصد تک لے جانے میں کامیا ب نہ ہوسکے اور اس کی پستی و خواری کو دیکھا تو اپنی زندگی پر موت کو ترجیح دی، اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور جلد از جلد اس دنیا سے اٹھائے جانے کی دعا کرنے لگے۔ چنانچہ آپ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے اللہ میں نے انھیں مایوس کیا اور انھوں نے مجھے مایوس کیا، میں نے انھیں اکتایا اور انھوں نے مجھے اکتایا، پس تو ان سے مجھے نجات دے دے اور مجھ سے ان کو نجات دے دے، پھر اپنی داڑھی پر اپنا ہاتھ رکھا اورکہنے لگے تمھارے سب سے بدبخت آدمی (یعنی قاتل) کے لیے کوئی چیز اس بات سے مانع نہیں ہے کہ وہ اسے (داڑھی کو) خون میں رنگ دے۔[3]
آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کافی الحاح و زاری سے دعائیں کیں، چنانچہ جندب کا بیان ہے کہ لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کے پاس اس قدر اژدحام کردیاکہ آپ کے قدموں کو روند ڈالا، تو آپ نے کہا: اے اللہ! میں نے انھیں اکتا دیا ہے اور انھوں نے مجھے اکتا دیا، میں نے ان سے نفرت کی اورانھوں نے مجھ سے نفرت کی لہٰذا تو مجھ کو ان سے اور ان کو مجھ سے نجات دے دے۔[4]
ایک دوسری روایت میں ابوصالح کا بیان ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ اپنے سر پر مصحف رکھ رہے تھے تب میں آپ کے پاس موجود تھا، میں نے ورق پلٹنے کی آواز سنی، آپ دعا کر ہے تھے: اے اللہ! میں نے ان لوگوں سے وہی مانگا جو اس قرآن میں ہے، لیکن انھوں نے مجھے نہیں دیا، اے اللہ میں نے انھیں اکتا دیا اور انھوں نے مجھ کو اکتا دیا، میں نے ان سے نفرت کی اورانھوں نے مجھ سے نفرت کی اور انھوں نے مجھے ایسی چیز پر مجبور کیا جو مجھے پسند نہیں ہے، پس تو انھیں میری جگہ پر مجھ سے بھی برا حاکم دے دے اور مجھے ان کے بدلہ ان سے کہیں اچھے لوگ عطا فرما اور
[1] میزان الاعتدال (3/124) اس موضوع سے متعلق آپ نے کافی اچھی تنقیدی گفتگو کی ہے۔ نیز خلافۃ علی بن أبی طالب ص (355),
[2] فضائل الصحابۃ (2/705) اس کی سند صحیح ہے۔