کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1179
یہاں یہ بات واضح رہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے متعلق آپ کے جو خطبات منقول ہیں اور خلافت کے ظاہری وصف کے خلاف اس کا تاریخی منظر نامہ پیش کرتے ہیں، درحقیقت وہی خطبات معرکہ نہروان کے بعد کے حالات کے تئیں آپ کے شدید احساساتِ غم کا ترجمان ہیں کہ جس میں آپ اپنی قوم کاپس و پیش دیکھ کر انتہائی رنجیدہ اور کبیدہ خاطر تھے۔ لیکن افسوس کہ آپ کی طرف منسوب شدہ بیشتر خطبات صحیح نہیں ہیں، متعدد علمائے اسلام نہج البلاغۃ میں مذکور خطباتِ علی کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ یہ سب شریف الرضی کے خود ساختہ خطبات ہیں۔[1] لہٰذا تاریخی مصدر کے اعتبار سے ان سے استشہاد کرتے ہوئے ہمیں کافی باریک بینی اور تنقیدی منہج سے کام لینا ضروری ہے۔
مزید برآں ایک دوسرے اعتبار سے بھی علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو جنگی پیش قدمی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، وہ یہ کہ آپ اپنے ساتھیوں کو اپنے فضائل و مناقب اور اسلام میں اپنے بلند مقام کو یاد دلانے لگے، بہت سارے لوگ جنھوں نے اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بتاتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے مدد کے لیے پکارا کہ کون ہے جس نے غدیر خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ((الستم تعلمون انی اولیٰ بالمومنین من انفسہم؟)) کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں پر ان کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوں۔ تو لوگوں نے کہا: ہاں کیوں نہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ اللہم والِ من والاہ و عاد من عاداہ)) پس میں جس کا دوست ہوں تو علی اس کے دوست ہیں، اے اللہ جو ان کو دوست بنائے تو اسے عزیز رکھ اور جو ان سے دشمنی کرے تو اس کو دشمن بنالے۔‘‘ یہ حدیث سن کر بارہ آدمی اور ایک روایت کے مطابق سولہ آدمی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس پر شہادت دی۔[2]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ موقف ہمیں عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی کے ان آخری حالات کی یاد تازہ کرتا ہے جب بلوائیوں نے آپ کا محاصرہ کرلیا تھا اورآپ اپنے فضائل ومناقب کی گواہی اپنے درمیان موجود صحابہ سے لے رہے تھے۔گویا آپ یہ کہہ رہے تھے کہ جس آدمی کے ایسے عظیم الشان کارنامے ہوں اور اسلام کے لیے جس کی اس قدر قربانیاں ہوں کیا اس کا یہی بدلہ ہوتا ہے؟
بہرحال ان تمام کاوشوں اورانتھک کوششوں کے باوجود علی رضی اللہ عنہ اپنا ہدف نہیں حاصل کرسکے، یعنی ملک کے داخلی انتشار اور فوج کی عدم رضا مندی اور اس کی باہمی چپقلش و رسہ کشی اور نفس پرستی کی وجہ سے شامیوں سے جنگ نہ لڑ سکے اورمجبوراً 40ھ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ساتھ اس بات پر مصالحت کرنے کو راضی ہوگئے کہ عراق
[1] البیان و التبیان / الجاحظ ص (238، 239)۔
[2] الأدب الإسلامی /نائف معروف ص (59)۔