کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1178
کے کنگن، پازیب اور بالیاں تک اتار لیں، انھوں نے قتل و غارت گری کا بازار خوب گرم کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر واپس گئے، لیکن ان کے کسی آدمی کو خراش تک نہ آئی، اس کے بعد اگر کوئی مسلمان افسوس اور رنج کے مارے مرجاتا ہے تو میرے نزدیک وہ ملامت کے قابل نہیں ہے، بلکہ ایسی موت فاسد ہے،کیا ہی تعجب ہے کہ ایک قوم باطل پر ہونے کے باوجود اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے پوری جد و جہد کرتی ہے اور تم حق پر ہونے کے باوجود بزدلی دکھاتے ہو، افسوس کہ تم دشمنوں کا نشانہ بن گئے، جس پر وہ جی بھر کر تیر چلاتا ہے، تم مال غنیمت بن گئے، جسے وہ جی بھر کر لوٹتا ہے، لیکن تمھاری غیرت کی حس بالکل مردہ ہوچکی ہے۔ تمھارے علاقہ میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے لیکن تم خاموش بیٹھے رہتے ہو، تم پر چڑھائی کی جاتی ہے، لیکن تم خاموش بیٹھے رہتے ہو، تم پر چڑھائی کی جاتی ہے، لیکن تم میں دشمن کا مقابلہ کرنے کا ولولہ بالکل پیدا نہیں ہوتا، علی الاعلان اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے، لیکن تمھارے دلوں میں قطعاً درد پیدا نہیں ہوتا، جب میں تمھیں گرمی میں شام کی طرف کوچ کرنے کو کہتا ہوں تو تم یہ عذر کردیتے ہو کہ اب سخت گرمی ہے، ہمیں کچھ مہلت دیجیے جب گرمی گزر جائے گی تب ہم چلیں گے، لیکن جب سردی آتی ہے تو سخت سردی کا عذر کرکے کہہ دیتے ہو کہ ہمیں مہلت دیجیے جب سردی گزر جائے گی تب ہم چلیں گے۔ نہ تم گرمی کی تاب لاسکتے ہو نہ سردی کی۔ جب تمھاری یہ حالت ہے کہ گرمی اور سردی تک سے تم بھاگتے ہو تو یقینا تلوار سے ضرور ہی بھاگو گے۔ اے وہ لوگو جو مردوں کے مشابہ ہو لیکن مرد نہیں ہو، میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے تمھارے درمیان سے اٹھالے، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری صورتیں بھی مجھے دکھائی نہ دیں اور مجھے تو تم سے کسی قسم کا تعلق نہ ہو۔ اللہ کی قسم! میں ندامت سے حیران ہوں، تم نے میرے دل کو غیظ و غضب سے بھر دیا ہے، تم نے مجھے موت کے گھونٹ پلانا چاہے ہیں، تم نے مجھ سے سرکشی اور میرے احکام کی سرتابی کرکے اور مجھے چھوڑ کر میری تمام تدابیر کو خاک میں ملا دیا ہے، اس وجہ سے قریش یہ کہنے لگے کہ ابن ابی طالب شجاع تو ہے لیکن اسے جنگ کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ اللہ ان کا بھلا کرے، ان میں سے کوئی شخص بھی مجھ سے زیادہ جنگ کا ماہر اور تجربہ کار نہیں، جتنا لمبا تجربہ جنگ کا مجھے حاصل ہے اور کسی شخص کو حاصل نہیں، میں ابھی بیس برس کی عمر کو بھی نہیں پہنچا تھا کہ مجھے جنگ کی پوری مہارت حاصل ہوگئی تھی، اب میں ساٹھ (60) سال کی عمر کو پہنچ چکا ہوں، لیکن جب تک کسی رائے اورتجربہ پر عمل نہ کیا جائے محض رائے اور تجربہ کاکوئی فائدہ نہیں۔‘‘[1] درحقیقت علی رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ ایک آتشیں بم تھا، جسے آپ اس قوم کے سروں پر برسا رہے تھے جس نے آپ کو آپ کی جہادی کاوشوں کا پھل کھانے سے محروم کردیا تھا اور جس مقصد کے لیے آپ سرگرداں تھے اس راہ میں رکاوٹ بنے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنی توقعات اور پھر اس کے برعکس نتائج پر اپنے رنج و الم کو ایسے عمدہ ادیبانہ اسلوب میں بیان کیا جس کی عبارتیں جذبات کو جھنجھوڑ دیں، اور اس کے الفاظ نہاں خانۂ دل میں اتر جائیں، آپ کا خطبہ غموض و ابہام سے بالکل دور ہے اور سجع اور الفاظ کی فنکاری سے بالکل پاک۔[2]
[1] التاریخ الصغیر / البخاری (1/125) اس کی سند منقطع ہے، لیکن اس کے شواہد پائے جاتے ہیں۔