کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1177
ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ منتشر ہوگیا جس کا اعتراف خود آپ نے اپنے ایک خطبہ میں یوں کیا ہے: ’’مگر بات یہ ہے کہ معاویہ کی طرف سے بسر بن ارطاۃ کی فوج چڑھائی کرچکی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ تم پر غالب ہو کر رہیں گے، کیونکہ یہ سب باطل پر اکٹھے ہیں اور تم اپنے حق لینے میں منتشر ہو۔ وہ اپنے امیرکی اطاعت کے پابند ہیں اور تم لوگ اپنے امیر کے نافرمان ہو۔ وہ امانت کی ادائیگی کرتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہو۔ میں نے فلاں کو عامل (گورنر) بنایاتھا، لیکن اس نے خیانت اور بدعہدی کی اور مالِ خلافت معاویہ کو دے دیا۔ فلاں کو گورنر بنایا تھا، لیکن اس نے بھی خیانت و بدعہدی کی اورمالِ خلافت معاویہ کو دے دیا اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ کسی کو ایک پیالہ کا امین بناتے ہوئے مجھے اس کے تعلق پر اندیشہ رہتا ہے۔ اے اللہ! میں نے انھیں ناپسند کیا اور انھوں نے بھی مجھے ناپسند کیا۔میری طرف سے ان پر رحم فرما اور مجھے ان سے نجات دے۔‘‘[1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا اپنے لشکر کو لڑائی پر ابھارنا اور پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ بندی پر مصالحت کرنا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ان مصائب، فوجی سرد مہری اور عوام کی جنگی بے رغبتی کے سامنے جھکے نہیں بلکہ پوری دانائی، دلائل اور فصاحت و بیان کے بلیغانہ اسلوب کے ذرائع سے اپنی فوج کی ہمت افزائی کی۔ اس سلسلہ میں جنگی جوش اور قوت غیرت کو بھڑکانے والے جو خطبات مشہور ہیں اور جنھیں ادبی وراثت میں اہم مقام حاصل ہیں، انھیں آپ نے خالی الذہن ہوکر تصورات کی دنیا میں جاکر نہیں کہا بلکہ وہ ایسے تلخ حقائق ہیں جن کا جام آپ نے خود نوش کیا تھا، وہ خطبات ان دردناک حالات کے ترجمان ہیں جن کی فضاؤں میں آپ نے سانسیں لی تھیں۔ چنانچہ جب آپ کے اطراف اور سرحدی ریاستوں پر شامی افواج کے حملے ہوئے تو آپ نے یہ خطبہ دیا۔ فرمایا: ’’حمد و صلاۃ کے بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ جس شخص نے جان بوجھ کر اس سے روگردانی کی اللہ تعالیٰ اسے ذلت کا لباس پہنائے گا، مصائب کاپہاڑ اس کے سر پرٹوٹ پڑے گا، ذلت و خواری مقدر ہوجائے گی، اس کے دل پر پردہ پڑ جائے گا اور اسے اپنے حق سے محروم کردیا جائے گا اور وہ عدل و انصاف سے محروم کردیا جائے گا۔ میں تمھیں شامیوں سے لڑنے کے لیے شب و روز بلاتا رہا، میں تم سے بار بار کہتا رہا کہ قبل اس کے کہ یہ لوگ تم پر حملہ کریں تم ان پر چڑھائی کردو، کیونکہ جس قوم پر حملہ کیا جاتا ہے اور جس کے علاقہ میں اس کے دشمنوں کے پاؤں پہنچ جاتے ہیں، وہ ذلیل اور رسوا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن تم نے میری بات پر مطلق کان نہ دھرا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے، میری نصیحت تمھیں گراں گزرتی تھی اور میری باتوں کو تم ہنسی میں اڑا دیتے تھے، اس لاپروائی کا جو کچھ نتیجہ ہوا وہ اب تمھارے سامنے ہے۔ تمھارے علاقہ پر دشمن نے چڑھائی کردی، دیکھو غامد کے بھائی (سفیان بن عوف غامدی) کے گھوڑے انباء تک پہنچ چکے، مجھے خبر ملی ہے کہ ان لوگوں نے مسلمان اور ذمی عورتوں
[1] الطبقات / ابن سعد (2/82) خلافۃ علی بن أبی طالب /عبدالحمید ص (351) بسند صحیح۔ [2] تاریخ خلیفۃ بن خیاط۔ یہ روایت بلا سند مروی ہے ص (198)۔ [3] ولاۃ مصر ص (45، 46)۔ [4] الاستیعاب (2/525، 526)۔