کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1176
کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے، مزید جب علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں داخلی انتشار اور عدم استحکام کو آپ نے محسوس کیا تواس موقع سے فائدہ اٹھایا اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مصر کی طرف ایک فوج روانہ کردی، جہاں انھوں نے قبضہ جما لیا اور اسے اپنی ریاست میں شامل کرلیا، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی اس فتح اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس سیاسی کامیابی کے پیچھے چند اہم اسباب و عوامل کار فرما رہے، مثلاً:
٭ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کا خوارج کے معاملات میں الجھ جانا۔
٭ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر کے گورنر محمد بن ابوبکر کا اپنے سابق ہم منصب قیس بن سعد بن عبادہ الساعدی الانصاری کی طرح زیرک اور معاملہ فہم نہ ہونا، چنانچہ انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون بہا کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ انتقامی کارروائی کا ماحول پیدا کردیا اور ان سے ہوش مندانہ سیاست سے کام نہ لیا جیسا کہ ان کے سابق ہم منصب کرتے تھے ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خون بہا کا مطالبہ کرنے والوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔
٭ معاویہ رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خون بہا کا مطالبہ کرنے والوں کا ہم خیال ہونا، پس اس اتفاق رائے کے نتیجہ میں مصر پر قبضہ کرنا آسان ہوگیا۔[1]
٭ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے مرکز خلافت سے مصر کی دوری اور شام سے قربت۔
٭ مصر کا جغرافیائی محل وقوع، چنانچہ سیناء کے راستہ اس کی سرحد شام کی سرزمین سے متصل تھی، جو طبعی طور سے امتداد کے راستہ کو ہموار کر رہی تھی، مصر پر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قبضہ اور تسلط ہوجانے کے بعد آپ کی نفری اور اقتصادی قوت بہت مضبوط ہوگئی۔ آپ نے صرف اسی پر بس نہ کیا، بلکہ جزیرۂ عرب کے شمالی خطوں مکہ، مدینہ اور یمن وغیرہ میں بھی اپنے فوجی دستے روانہ کیے، لیکن جب علی رضی اللہ عنہ نے فوجی دفاعی کارروائی کی تو ان دستوں کو الٹے پاؤں لوٹنا پڑا۔[2]
نیز معاویہ رضی اللہ عنہ نے قبائل کے سرکردہ لوگوں اور علی رضی اللہ عنہ کے گورنروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، مثلاً قیس بن سعد رضی اللہ عنہ جو علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر پر ان کے گورنر تھے، انھیں اپنی طرف کھینچنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئے۔[3] ہاں اتنا ضرور ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ کے مشیروں اور آپ کے ہم نشینوں کے نزدیک انھیں مشکوک بنا دیا اور علی رضی اللہ عنہ نے انھیں معزول کردیا اور پھر سعد بن قیس رضی اللہ عنہ کی یہ معزولی معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں ایک بہت بڑی کامیابی ثابت ہوئی۔ اسی طرح آپ نے فارس کے گورنر زیاد بن أبیہ کو بھی اپنی طرف کھینچنا چاہا لیکن ناکام رہے۔[4]
بہرحال معاویہ رضی اللہ عنہ بعض سرکردہ افراد اور گورنران پر اپنے احسانات اور مستقبل کے بہترین وعدوں کے سبب ان پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوگئے، پھر یہ لوگ خود بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی برتری کو دیکھ رہے تھے جس کا نتیجہ یہ
[1] خلافۃ علی بن ابی طالب /عبدالحمید علی ص (345)۔
[2] نظام الخلافۃ فی الفکر الإسلامی /مصطفی حلمی ص (15، 16)۔
[3] خلافۃ علی بن أبی طالب / عبدالحمید علی ص (350)۔
[4] تاریخ الطبری (6/27، 47)۔
[5] تاریخ الطبری (6/53)۔