کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1175
ان کے ہاتھ نہ آئی تھی۔ اس موقع پر امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے دیگر اصحاب نے جس صلح یا تحکیم کا استقبال کیا تھا، اگر وہ نہ کرتے تو عالم اسلام پر ایسی مصیبت ٹوٹتی کہ جس کے برے اثرات شاید تصور میں بھی نہ لائے جاسکتے، پس یہی وجہ تھی کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوبارہ شام کی طرف فوج کشی کے لیے وہ آمادہ نہ تھے، اگرچہ انھیں یقین تھا کہ علی رضی اللہ عنہ ہی حق پر ہیں۔[1]
نیز علی رضی اللہ عنہ کے راستہ کی ایک رکاوٹ یہ بھی ثابت ہوئی کہ انھیں ایام میں ایک ایسا فرقہ پیدا ہوا جو علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و مرتبہ کو مقام الوہیت تک پہنچاتا تھا جسے بعض لوگ خوارج کے تبرّائے علی، و تکفیر صحابہ کا رد عمل مانتے ہیں۔[2] حالانکہ یہ بات نہ تھی، بلکہ اس فرقہ کا ہدف یہ تھا کہ اس فاسد عقیدہ کے ذریعہ سے صرف علی رضی اللہ عنہ کی فوج ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی قوت کو کمزور کیا جائے اور اسلام کی جڑ کو کاٹ دیا جائے۔[3] لیکن جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے پوری قوت اور عزم و ہمت کے ساتھ اس چیلنج کا مقابلہ کیا تھا اوریہ لوگ نامراد رہے۔
بہرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے خوارج کی علیحدگی اور پھر ان کے خلاف قاتلانہ کارروائی نے آپ کے فوجی پہلو کو نہایت کمزور کردیا تھا اور پھر یکے بعد دیگرے دور نزدیک سے بہت سارے لوگ آپ کی خلافت سے الگ بھی ہوتے گئے۔ چنانچہ خریج بن راشد اور بقول بعض اس کا نام حارث بن راشد تھا، وہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اہواز کا گورنر تھا، اس نے اپنے قبیلہ بنوناجیہ کے لوگوں کو علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے الگ ہونے پر اکسایا، بہت سارے لوگوں نے اس کی بات مان لی، وہ اپنے زیراقتدار ریاست کے بہت سارے شہروں پر قابض ہوگیا اورملکی دولت لوٹ لی۔ علی رضی اللہ عنہ نے معقل بن قیس الریاحی کی قیادت میں اس کے مقابلہ کے لیے ایک فوج روانہ کی اور اس نے مقابلہ میں خریج بن راشد کو شکست دی، پھر اسے قتل کردیا۔[4]
ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال دیکھ کر خراج دہندگان نے بھی علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو کمزور کرنا چاہا تاکہ خراج دینے سے چھٹکارا مل جائے، باشندگان اہواز نے بدعہدی بھی کی تھی، لہٰذا اب یہ ناممکن تھا کہ علی رضی اللہ عنہ بعض مالی و فوجی بحران سے دوچار نہ ہوں، چنانچہ اس سلسلہ میں امام شعبی سے مروی ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ نے نہروان والوں کو قتل کیا، تو بہت سارے قبائل آپ کے مخالف ہوگئے، آپ کے قرب و جوار کے باشندوں نے بدعہدی کی، بنوناجیہ نے کھلی بغاوت کی، ابن الحضرمی بصرہ پہنچا اور اہل اہواز نے بھی خلافت علی سے رشتہ توڑ لیا، خراج دہندگان سے مالِ خلافت بھی جمع کرنے لگے اور فارس میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گورنر سہل بن حنیف کو وہاں سے نکال دیا گیا۔[5]
دوسری طرف معاویہ رضی اللہ عنہ خفیہ اور اعلانیہ طور سے مختلف وسائل کے ذریعہ سے علی رضی اللہ عنہ کی فوجی قوت کو کمزور
[1] صحیح مسلم ۔