کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1173
اس کے لیے سخت موقف اپنانا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔[1]
اہل سنت و جماعت کے اہل حل و عقد ہی مختلف گروہوں کی یکجائی معاشرت کے پیچیدہ مسائل میں سیاسی موقف کا اندازہ لگاتے ہیں اور شرعی سیاست کے وضع کردہ قانون مصالح و مفاسد کے مطابق دوسری جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ اتفاق ومعاہدات کرتے ہیں، پس ان اہل حل و عقد علماء اور داعیانِ اسلام کے لیے یہ چیزیں اس بات سے مانع نہیں ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کو اہل سنت کے منہج کی تعلیم دیں اور اسی پر ان کی تربیت کریں اور مسلمانوں کے درمیان گھسے ہوئے عقائد منحرفہ سے انھیں خبردار کریں، تاکہ مسلم معاشرہ ان فاسد و باطل افکار سے متاثر نہ ہو کہ جن کے عقیدت مند صبح وشام، بلا کسی اکتاہٹ اور تھکاوٹ کے خفیہ اور اعلانیہ طور سے اس کی نشر و اشاعت میں لگے ہوئے ہیں۔
ذرا غور تو کرو! کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ ہجرت کی تو آپ نے وہاں پہنچ کر یہودیوں سے معاہدہ کیا، اور اس معاہدہ نے انھیں اسلامی مملکت کے سائے میں پُرامن اور باعزت زندگی گزارنے کا موقع دیا، لیکن قرآن مجید ٹھیک اسی وقت میں یہودیوں کے بگڑے ہوئے یہودی عقائد، ان کی سیاہ تاریخ اور بداخلاقی پر گفتگو کرتا رہا، تاکہ مسلمان یہودیت کے حقیقی چہرہ کو اچھی طرح پہچان لیں اوران سے دھوکا نہ کھائیں۔
[1] مسألۃ التقریب (2/360)۔