کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1172
قرآن اور صحیح سنت پر ہے، وہ اس سطح پر اترنے کو ہرگز تیار نہیں ہوسکتے کہ دین کو کسی خریدو فروخت اوربھاؤ تاؤ کرنے کا سامان بنا دیں، جب کہ روافض حضرات بدعات میں لت پت ہیں، وہ اگر ان چیزوں سے نیچے نہیں اترتے تو محض اس بنیاد پر کہ تعصب اور نفس پرستی کے شکار ہیں اور اپنے بعض بزرگان مسلک و علمائے مذہب جو کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کے راستوں سے ہٹے ہوئے ہیں، ان کے لیے مادی منفعت کے زوال سے خائف ہیں۔
علمائے امت نے بیان کیا ہے کہ اہل سنت پر بدعتیوں کی بدعات کی تردید لازم ہے، اگرچہ وہ بدعتی اپنی بدعات کا خوگر اور ان کی درستگی و عبادت کا عقیدہ رکھتا ہو، البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان بدعات کی تردید و انکار کو مصلحتاً مفاسد و مصالح کے موازنہ کے ساتھ مقید کردیں، بایں طور کہ ایک بڑے نقصان کو ٹالنے کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کرلیں اور بڑی بھلائی کے حصول کی حرص میں چھوٹی بھلائی کے فوت ہوجانے کو گوارا کرلیں، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ فقہائے اسلام کے نزدیک یہ قاعدہ درست اور صحیح ہے۔ تو اس اصول پر عمل کرتے ہوئے ہمیں کبھی کبھار یا کہیں کہیں روافض کی بدعات کے انکار پر خاموش ہونا پڑسکتا ہے تاکہ کوئی اُس سے بڑی مصیبت پیدا نہ ہوجائے، کیونکہ ممکن ہے بعض وہ مقامات جہاں شیعہ سنی برابر کی تعداد میں رہتے بستے ہوں یہ انکار مزید فتنہ سامانی، خون ریزی اور باہمی جنگ کا سبب بن جائے۔ رہے عام حالات جہاں ایسے کسی خطرے کا اندیشہ نہ ہو تو وہاں تردید و انکار درست یا حالات کے اعتبار سے واجب بھی ہوسکتا ہے۔[1]
علمائے اہل سنت کے لیے لازم ہے کہ اہل بدعت کی بدعات کی تردید و مناقشہ کے لیے خوش گوار علمی تحقیق کا اسلوب اپنائیں، ان کے ساتھ قدرے نرمی سے پیش آئیں، جس کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ کبھی کبھار ان کی زیارت کرلیا کریں اور جن معاملات و مسائل میں ان سے اختلافات نہیں ان میں ان کی مدد کردیں، یا مشکل گھڑی اور نامساعد حالات میں ان کے لیے سہارا بن جائیں۔ اگر کافر، یا ظالم کے ساتھ ان کے معاملات الجھے ہوئے ہوں تو شرعی سیاست جو کہ مصالح و مفاسد کی پابند ہے، اس کے مطابق ان کے طرف دار بن جائیں، لیکن یاد رہے کہ تعاون، خوشگوار تعلق اور نرمی کا یہ پہلو ہمیشہ نہیں رہنا چاہیے کہ کوئی رافضی اپنے مبالغہ آمیز عقائد ونظریات کو لے کر سنت کے قلعہ میں گھس جائے اور اس پر خاموشی کے نتیجہ میں بلوا اور جنگ و جدال کو پر پرزے نکالنے کا موقع مل جائے، بلکہ ایسے سخت متعصب اور شاذ اقوال کے معتقد اہل بدعت کی ہر حال میں تردید واجب ہے اور ان دونوں گروہوں یعنی متعصبین و معتدلین کے درمیان حد فاصل یہ ہے کہ مخاطب اہل بدعت کی بات کو دیکھا جائے کہ وہ شرعی نصوص پر کتنا اعتماد کرتا ہے، ممکن ہے وہ کسی اشکال کا شکار ہو، یا کسی ایسی تاویل میں الجھا ہو جس کی طرف انسانی ذہن مائل ہوسکتا ہے، رہا وہ شخص جو مجہول اور متاخرین سے منقولہ اقوال و ملفوظات کے عجائبات و غرائب کا پابند ہے جس کے لیے تاویل کا کوئی راستہ ہی نہیں، تو اس کے تئیں تردید وانکار کا پہلو ہر حال میں سخت ہونا چاہیے، بلکہ بعض اوقات
[1] المنہج المبین لشرح الأصول العشرین ص (243، 259، 279، 305)۔
[2] المنہج المبین لشرح الأصول العشرین ص (343)۔