کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1171
الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾ (یونس: 63) یعنی اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے تھے۔ شرعی اوصاف وشرائط کی موجودگی میں ان کے لیے کرامت ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ وہ خود اپنی ذات کے لیے اپنی زندگی میں یا موت کے بعد کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں چہ جائیکہ وہ کسی دوسرے کو کچھ نوازیں۔ سنت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق قبروں کی زیارت مشروع ہے، لیکن قبر میں مدفون انسانوں سے مدد مانگنا، دور یا نزدیک سے انھیں قضائے حاجات کے حل کے لیے پکارنا، ان کے لیے نذر ونیاز کرنا، قبروں پر پھول چڑھاوے کرنا، ان پر چادریں چڑھانا، چومنا چاٹنا، غیر اللہ کی قسم کھانا اور اس طرح کی دیگر بدعات شدید ترین گناہ کبیرہ ہیں، ان سے بچنا اور ان کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان اعمال باطلہ کے جواز کے لیے الفاظ کی تاویل کا سہارا نہ لیں، تاکہ یہ کام کفر و شرک تک پہنچانے کا ذریعہ سے نہ بن سکیں، غلطی پر قائم عرف اور معاشرتی رواج شرعی الفاظ کے حقائق کو نہیں بدل سکتے، ضروری ہے کہ الفاظ کی معنویت اور معانی کے حدود و مقاصد پر توجہ دی جائے اور اسی پر اکتفا کیا جائے۔ دین ہو یا دنیا، دونوں کے ہر پہلو میں الفاظ کے دھوکہ میں نہ آنا چاہیے کیونکہ اعتبار مسمیات کا ہوتا ہے نہ کہ اسماء کا۔[1] اسلام عقل و فکر کی آزادی دیتاہے، کائنات میں غور و تدبر کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے، علم اور علماء کی قدر ومنزلت کو بلند کرتا ہے، ہر مفید اور عمدہ چیز کو خوش آمدید کہتاہے، پس یہ حکمت کے گُر ہیں اورحکمت مومن کی متاع گمشدہ ہے، وہ اسے جہاں کہیں پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ ہم کسی بھی کلمہ گو مسلمان کی تکفیر نہ کریں، بشرطیکہ وہ شہادتین کا اقرار کرتاہو، اس کے تقاضوں کا پابند ہو اور فرائض کی ادائیگی کرتا ہو۔ محض کسی رائے کی غلطی یا گناہ کے ارتکاب پر اسے ہرگز کافر نہ کہیں۔ ہاں اگر کلمۂ کفر کا اقرار کرے، یا دین اسلام کے اساسی و یقینی امر کا انکار کرے، یا صریحاً قرآن کو جھٹلا دے یا ان معنوں میں قرآن کی تاویل و تفسیر کرے جن کا عربی زبان سے قطعاً کوئی تعلق نہیں بن پاتا، یا ایسا کام کرے جس میں کفر کے علاوہ کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو تو اسے کافر کہا جاسکتا ہے۔[2] بے شک اسی طرح کے اصول و افکار عام طور سے لوگوں کے صحیح اسلام کی معرفت کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں اور صحیح اسلام کی ترجمانی اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اہل سنت و جماعت کے اس منہج سے ہوتی ہے جس کے اصولوں کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین اور ان کے طریقہ کار کو اپنانے والے علماء و فقہاء رحمۃ اللہ علیہم نے ڈالی ہے۔ بے شک اہل سنت کے منہج پر چلنے والے حق پرست الحمد للہ بدعات سے پاک ہیں، ان کے ہر عمل کا دار و مدار
[1] مسألۃ التقریب (2/296) ۔ [2] المنہج المبین لشرح الأصول العشرین د/عبداللہ الوشلی ص (126)۔ [3] المنہج المبین لشرح الأصول العشرین د/عبداللہ الوشلی ص (157)۔