کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1170
الفرق فی تاریخ المسلمین‘‘ درحقیقت شیعہ مسلک کو نہایت باریک بینی و اہتمام سے پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مذہب کی کتب میں جہاں ضلالت و انحرافات کا ایک بہت بڑا انبوہ ہے وہیں صداقت پر مبنی حقانیت کی کچھ روشن لکیریں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پس ممکن ہے کہ یہیں سے ائمہ کے حق میں کتاب و سنت کے مطابق برحق عقائد کے ثبوت میں روشنی مل جائے اور پھر یہی چیز شیعہ قوم کو ضائع ہونے اور اسے ہلاکت کی وادیوں میں بھٹکنے سے بچا لے، روشنی کی یہ کرنیں جس طرح شیعہ حضرات کے اصول مذہب میں ملتی ہیں اسی طرح فروع مذہب میں بھی موجود ہیں اور اسی پر شیعہ سنی مفاہمت و اتحاد ممکن ہے۔[1] اسی طرح بعض علمائے شیعہ کی پیش کردہ مخلصانہ اصلاحی کوششوں اور تحریکوں کو سراہنا اوران کا احترام کرنا ضروری ہے اوران کی قوم کی خیرخواہی کی خاطر ان کے ساتھ ہاتھ ملانا بہتر ہے۔ جیسا کہ سید حسین الموسوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’للہ ثم للتاریخ، کشف الأسرار و تبرئۃ الأئمۃ الأطہار‘‘ میں جو اصلاحی آواز بلند کی ہے اور احمد کاتب نے اپنی کتاب ’’تطور الفکر السیاسی الشیعی من الشوریٰ إلی ولایۃ الفقیہ‘‘ میں جو کچھ پیش کیا ہے، یہ سب قابل مبارکباد ہیں ۔[2] ہم پر ضروری ہے کہ اہل بیت کے صحیح آثار کی پیروی کرتے ہوئے اور کتاب اللہ و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگوں کی رہنمائی کے لیے ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہم سب ان کے ہر سچے ’’مخلص‘‘ اور محبت کرنے والے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں۔ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں امن وامان کے ساحل تک لے جائیں اوران کے سامنے واضح کریں کہ اسلامی احکامات کی معرفت کے لیے ہر مسلمان کا مرجع صرف اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ واضح رہے کہ قرآ ن کی تفہیم و تشریح ہر طرح کی کھینچ تان، تعسف سے پاک اور عربی لغت کے قواعد کے مطابق ہو، جب کہ سنت مطہرہ کی افہام و تفہیم میں ثقہ رجال حدیث پر اعتماد ہو۔نیزانھیں سمجھایا جائے کہ صرف ایک معصوم ہستی یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات مانی بھی جاسکتی ہے اور اس کا انکار بھی کیا جاسکتاہے اوراسلاف کرام رضی اللہ عنہم کی جو بات کتاب و سنت کی موافق ہو گی اسے ہم قبول کریں گے۔ ورنہ قرآن مجید اور سنت نبوی ہی محور اتباع ہے۔ شخصیات کے اختلافات کو لے کر انھیں طعن و تجریح کا نشانہ نہ بنائیں، بلکہ اسے ان کی نیتوں پر چھوڑ دیں۔[3] اللہ کے دین میں ایجاد کردہ ہر طرح کی بدعت جس کا کوئی شرعی ثبوت نہ ہو اور لوگوں نے اسے اپنی مرضی سے اچھا سمجھ لیا ہو وہ بہرحال گمراہی ہے اور عمدہ و افضل اسباب و وسائل کہ جن سے مزید خرابی نہ پیدا ہو، کے ذریعہ سے اس کے خلاف جنگ اوراس کاخاتمہ کرنا ضروری ہے، نیز نیکوکاروں سے محبت کرنا اور رضائے الٰہی کی خاطر کیے گئے ان کے اعمال صالحہ پر ان کی تعریف کرنا بھی ضروری ہے۔اور اولیاء وہ لوگ ہیں جو اس آیت میں مذکور ہیں:
[1] مسألۃ التقریب (2/282، 283) ۔