کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1169
تردید ہو اور شیعہ حضرات کو کتاب اللہ اور سنت رسول کے قریب لایا جائے۔ علمائے اہل سنت اوران میں سرفہرست امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ آپ کے فرزندوں اور پوتوں جیسے علماء و فقہائے اسلام کے حوالہ جات سے انھیں اسلام کا صحیح مطلب سمجھایا جائے۔ اسی طرح رافضی دعوتی تحریکات کے راستہ میں بھی بند باندھنا انتہائی ضروری ہے جو اہل بیت کی مقدس ہستیوں کو بدنام کرتے ہیں اور جو پورے عالم اسلام اور امریکہ و یورپ میں پوری قوت کے ساتھ سرگرم عمل ہیں تاکہ تمام مسلمان ایک کلمہ پر متحد ہوجائیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں، اور فرقوں میں نہ بٹیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر قرآن، سنت، اجماع اور حق کی وضاحت میں ان مصادر شرعیہ کے حوالہ کی کوئی دلیل روافض علماء پر حجت قائم کرنے میں مفید ثابت نہ ہو رہی ہو، کیونکہ وہ لوگ بنیادی طور سے ان مصادر کو تسلیم کرنے میں اہل سنت کے خلاف ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان مصادر کی روشنی میں مذہب اہل سنت کی حقانیت و درستگی اور روافض کی ضلالت و انحراف کو بیان کرنے سے رک جائیں، ایسا ہرگز نہ کریں، کیونکہ یہ چیز ان شاء اللہ اہل سنت کے درمیان رافضی عقائد کی نشر و اشاعت میں رکاوٹ اور حدفاصل کا کام کرے گی۔
اسی طرح ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ان کی خامیوں اور باطل طرازیوں کی تردید خود انھیں کی کتب سے کریں حالانکہ ہمارے متقدمین علماء جنھوں نے روافض کی تردید کا اہتمام کیا، ان کے دلائل کا بخیا ادھیڑا اور دعوؤں کا سر پھوڑا، انھوں نے تردید و ابطال کا یہ منہج نہیں اپنایا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح آج شیعہ مذہب کی کتب عام اور متداول ہیں اس طرح ان کے دور میں نہ تھیں، صرف روافض کے ہاتھوں تک یہ کتب محدود تھیں، یا اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان کی بعض اساسی کتب متاخرین علمائے شیعہ کی طرف سے لکھی گئی ہوں پھر وہ متقدمین کی طرف منسوب کردی گئی ہوں۔ یا متقدمین ہی کی تالیفات رہی ہوں، لیکن بعد کے دور میں خاص طور سے صفوی دور حکومت میں اس میں اضافہ کر دیا گیا ہو، بہرصورت جو بھی اسباب رہے ہوں، لیکن چونکہ اس دور میں شیعہ مذہب کی کتب عام اور متداول ہیں اور بے شمار روافض شیعہ ان کی تقدس و عظمت کے معترف ہیں اور ان کی صحت پر ان کا ایمان ہے، انھیں کو مانتے ہیں اورانھیں سے دلائل پیش کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے ذریعہ سے قرآن مجید کی ظاہری نصوص اور صحیح احادیث نبویہ کی تردید کرنے میں باک نہیں محسوس کرتے، بلکہ بعض شیعہ تو ان افسانوں اورکہانیوں تک کی تصدیق کرتے ہیں جن سے قرآن مجید پر حرف آتا ہے اور جن سے ائمہ کے لیے وحی اور علم غیب کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے شیعہ عقائد واصول کی تصحیح انھی کی کتب سے اوران کی گمراہیوں کا انکشاف انھی کی روایات سے اور حقیقی سنی شیعہ مفاہمت و اتحاد کو انھیں کی کتب کی روشنی میں انجام دینے کی ضرورت ہے۔[1]
اس میدان میں کچھ لائق تحسین کوششیں کی گئی ہیں اور بعض کتب منظر عام پر آچکی ہیں مثلاً فیصل نور کی تالیف ’’الإمامۃ و النص‘‘ محمد سالم الخضر کی تالیف ’’ثم أبصرت الحقیقۃ‘‘ ڈاکٹر ناصر عبداللہ بن علی القفاری کی تالیف ’’أصول الشیعۃ الامامیۃ الاثنا عشریۃ‘‘ ڈاکٹر احمد چلپی کی تالیف ’’دراسات عن
[1] مسألۃ التقریب (2/208) الوشیعۃ ص (39)۔
[2] مسألۃ التقریب (2/208) الوشیعۃ ص (39)۔