کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1168
آئیے دیکھیں! کہ یہ مسائل جنھیں میں نے اللہ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٤٣﴾ (النحل:43) پر عمل کرتے ہوئے، خود اسی قوم کی اساسی کتب کے حوالہ جات سے برائے وضاحت طلبی ان کے سامنے پیش کیا تھا اس کا رد عمل کیا ہوا، میں نے ایک سال سے کچھ زائد عرصہ تک جس کے جواب کا انتظار کیا، لیکن بصرہ کے ایک بڑے شیعہ مجتہد کے علاوہ کسی کا جواب میں نے نہیں سنا، اس نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور نوے (90) صفحات سے زائد پر مشتمل ایک کتاب کی شکل میں میرے تمام سوالوں کا جواب دیا۔ ان جوابات کی نوعیت یہ تھی کہ عصر اوّل کے مسلمانوں (صحابہ و دیگر اسلاف) پر اس نے طعن و تشنیع کے جو کلمات استعمال کیے تھے وہ شیعہ مذہب کی قدیم ترین مستند کتب سے زیادہ سخت اور برے تھے۔ اس کے بعد شیخ موسیٰ جار اللہ نے جب دیکھا کہ دیگر شیعہ علماء مشائخ خاموش ہیں تو ’’الوشیعۃ فی نقد عقائد الشیعۃ‘‘ نام سے ایک کتاب لکھی اور لکھا کہ میں اس کتاب کے ذریعہ سے شرفائے امت اور دین اسلام کے تقدس و حرمت کی طرف سے دفاع کر رہا ہوں اور دور اوّل کے مسلمانوں (صحابہ و دیگر اسلاف) کے تئیں مجھ پر اور پوری امت پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کو ادا کررہا ہوں۔[1] شیخ موسیٰ جار اللہ اگر ایک طرف اپنی کتاب ’’الوشیعۃ‘‘ کی نشر و اشاعت اور شیعہ مشائخ کی تلقین و نصیحت کو شیعہ سنی اتحاد اور مسلمانوں میں باہمی الفت ومحبت کا پہلا مرحلہ اور اوّل تدبیر قرار دے رہے تھے تو دوسری طرف شیعہ مشائخ نے شیخ موسیٰ جار اللہ کے بیان کردہ حقائق و انکشافات کو دفن کردینا واجب سمجھا۔ اس طرح کے انکشافات کو سن کر یہ قوم غصہ سے بپھر اٹھتی ہے اور تلملانے لگتی ہے اور کیوں نہ ایسا ہو جب کہ ان اباطیل کے سامنے آجانے کے بعد ان کے پوشیدہ اغراض و مقاصد کی رسوائی ہوتی ہے اور معصوم و منتظر امام غائب کی نیابت کے نام پر بھولے بھالے شیعہ عوام کے دینی استحصال اور اس منتظر کے نام پر ’’خمس‘‘ کی وصولی والے مالی استحصال کا پردہ کھل جاتا ہے۔[2] 4۔شیعہ سنی اتحاد ومفاہمت کا صحیح منہج: شیعہ سنی اتحاد کا صحیح منہج یہ ہے کہ علمائے سنت، کتاب و سنت سے مستفاد اپنے صحیح عقیدہ کی نشر و اشاعت کے لیے بے انتہا محنت کریں اس کی حقانیت کو واضح کرتے ہوئے اہل بدعت کے عقائد سے اس کی امتیازی و انفرادی حیثیت کو نمایاں کریں، روافض کی سازشوں، اکاذیب اور اہل سنت کی کتب سے ان کے غلط استدلال کا پردہ چاک کریں، اہل سنت پر ان کے اعتراض کا علمی،مدلل اور عدل پر مبنی جواب دیں، ساتھ ہی ساتھ روافض کے انحرافات کو بیان کرتے رہیں، ان کی گمراہیوں اور فاسد اصولوں کو منظر عام پر لائیں، اگر ائمہ سنت اس میدان میں اترتے ہیں تو منصوبہ بند طریقہ پر دوگنی اجتماعی جد وجہد کی ضرورت ہے۔ اس اتحاد کا سب سے مستحکم اور بنیادی طریقہ کار یہ ہے کہ حق بات کی خوب وضاحت اور باطل کی زبردست