کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1167
میں جہاد کرتا ہوا مر جائے تو وہ شہادت اور جنت کا مستحق نہیں، بلکہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ جہنم کی طرف جلدی کر رہا ہے۔
شیخ موسیٰ نے ان مسائل کو شیعہ مذہب کی معتبر ترین کتب سے مدلل کرتے ہوئے علمائے د اعیان شیعہ کو اس طرح مخاطب کیا ہے: ’’یہ چھ مسائل ہیں جن پر شیعہ عقائد کو یقین و اعتماد ہے، پس کیا ان شیعی عقائد کے ہوتے ہوئے عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو ایک صف میں متحد کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا ان مسائل اور عقائد کے بعد ان کے ماننے والوں میں اتحاد بین المسلمین کا کوئی اثر ہوسکتا ہے؟ اور کیا اس عقیدہ کے بعد امت مسلمہ کے لیے یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں اسلام کے غلبہ کی راہ میں وہ کوئی کوشش کرسکے؟‘‘
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان چھ مسائل کے بعد مزید دیگر ناپسندیدہ مسائل کا تذکرہ کیا ہے، مثلاً:
٭ امت مسلمہ (یعنی سنی مسلمانوں) کی احادیث کی تردید اوراہل تشیع کا یہ دعویٰ کہ ہر وہ طریقہ جس سے امت مسلمہ کی مخالفت ہو اس میں بھلائی ہے۔ حالانکہ اس اصول کی روشنی میں اسلام کے نیست و نابود ہونے سے پہلے خود شیعہ مذہب نیست و نابود ہوتا نظر آتا ہے۔
٭ شیعہ مذہب کی کتب کے ابواب میں ان کے ائمہ اور متبعین کے فضائل میں پائی جانے والی آیات اور سورتوں کا وجود اور دوسری طرف ان ابواب کا ذکر جن کے ضمن میں ابوبکر و عمر اوران کے متبعین کی تکفیر ہے۔
٭ تقیہ کے بارے میں اہل تشیع کا مبالغہ آمیز عقیدہ۔
٭ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی تھی اور وہ ام المومنین کی فہرست سے خارج ہیں۔
٭ امام غائب جب آئیں گے تو اپنی والدہ محترمہ یعنی فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقام لیتے ہوئے عائشہ پر حد نافذ کریں گے۔
٭ امام غائب جب ظہور کریں گے تو مساجد اسلام کو گرا دیں گے۔
پھر آپ نے ذکر کیا ہے کہ مذہب شیعیت کی روح عداوت پر قائم ہے اور اس مذہب کی کتب میں ابوبکر و عمر، اور علی رضی اللہ عنہم کے درمیان عداوت اور باہمی رنجش کی جو حکایات اور واقعات ملتے ہیں سب من گھڑت ہیں۔ اسی طرح اس مذہب کی بعض کتب اپنے ائمہ کی زبانی یہ بات نقل کرتی ہیں کہ امت مسلمہ اگرچہ امانت اور صدق و وفا کے اوصاف سے متصف ہوجائے لیکن وہ مومن نہیں ہوسکتی، کیونکہ اسے ولایت (ائمہ) کا انکار ہے۔ جب کہ شیعہ قوم کے پاس اگرچہ دین نام کی کوئی چیز نہ ہو پھر بھی وہ معتوب نہیں، اس لیے کہ اس کے پاس ایک امام عادل کی ولایت کا عقیدہ ہے۔
پھر آپ نے دیگر کئی مسائل کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’لہٰذا اے میرے محترم علمائ، مہربانی ہو گی کہ آپ لوگ ہمیں اس کا جواب دو تاکہ پوری امت مسلمہ متحد ہوجائے اور سب کے سب اللہ کی کتاب مبین پر متفق ہوجائیں۔‘‘
[1] الوشیعۃ ص (19) مسألۃ التقریب (2/199)۔