کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1166
کا بیان ہے کہ میں نے ’’اصول الکافی و فروعہ‘‘ اور ’’من لایحضرہ الفقیہ‘‘ اور کتاب ’’الوافی‘‘، ’’مرآۃ العقول‘‘، ’’بحار الانوار‘‘، ’’غایۃ المرام‘‘ اور ان کے علاوہ دوسری بہت ساری کتب کا مطالعہ کیا۔[1] پھر شیعہ ممالک اور ان کے اکثریتی علاقوں کا دورہ کیا اور سات مہینوں سے زائد کا عرصہ ان کے درمیان گزارا، ان کی عبادت گاہوں، خانقاہوں، مزاروں، محفلوں اور عزاء وماتم کی مجالس میں جاتا رہا، گھروں، مسجدوں اور مدارس میں ان کے دروس کو سنتا رہا، محرم کے ایام میں نجف میں قیام کیا اور ایام عزاء ویوم عاشوراء میں یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں تمام چیزوں کا مشاہدہ کیا اور پھر آپ ایک علمی نتیجہ لے کر وہاں سے نکلے، آپ کو آپ کی علمی گہرائی اور نگاہِ بصیرت نے اس نتیجہ پر پہنچایا کہ شیعی عقائد اوران کی موجودہ مذہبی صورت حال پر تنقید کرنا ہی امت مسلمہ کے دلوں میں باہمی محبت پیدا کرنے کا اوّلین مرحلہ ہے اور اس کے بغیر اتحاد ناممکن ہے، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت آپ نے شیعہ سنی اتحاد کے مسئلہ کو لے کر سب سے پہلی ملاقات مستند شیعہ عالم دین محسن الامین سے تہران میں ملاقات کی دونوں میں گفت و شنیدہوئی، پھر شیخ موسیٰ نے 26/8/1934ء کا تحریر کردہ ایک مختصر رسالہ پیش کیا اور اس کی ایک کاپی علمائے نجف کے پاس روانہ کردی اور ایک کاپی علمائے کاظمیہ کے پاس بھیج دی، اس میں آپ نے لکھا تھا:میں ان مسائل کو بصد خلوص و احترام علمائِ نجف اشرف کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ سچے اور قلب سلیم کے ذریعہ سے اس سے استفادہ کیا جائے گا، اس سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ دونوں اسلامی دنیا یعنی بزعم خویش حق کی طرف دار اہل تشیع کی جماعت اور تمام اہل سنت و جماعت کے درمیان مفاہمت و اتحاد کی راہ نکل جائے۔ امید کہ آپ تمام علمائے کرام اجتماعی یا انفرادی طور سے، نہایت واضح انداز میں، اپنے دستخط و مہر کے ساتھ ہمیں جواب سے نوازیں گے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے شیعہ مذہب کی کتب اور صفحات کے حوالہ سے ان تمام مسائل کو درج کیا تھا جو انتہائی ناپسندیدہ اور قابل اعتراض تھے، چنانچہ آپ نے انھیں خطرناک امور کی طرف نشاندہی کی جو شیعہ سنی اتحاد کی راہ میں سب سے اہم رکاوٹ تھے مثلاً: ٭ تکفیرِ صحابہ ٭ دور اوّل یعنی خیر القرون کے اسلاف پر لعن طعن ٭ تحریف قرآن مجید ٭ تمام اسلامی حکومتوں اور اس کے قاضی وعلماء کو طاغوت کہنا اور ان کی تکفیر ٭ شیعہ کے علاوہ تمام ہی اسلامی فرقوں و جماعتوں کو کافر کہنا اورانھیں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کا مستحق ٹھہرانا۔ ٭ واجب الاطاعت امام المسلمین (جو کہ اب امام غائب ہیں) کے علاوہ کسی اور کے ساتھ جہاد کرنے کی منسوخیت، مردار جانور اور خنزیر کی طرح اس کی حرمت، صرف شیعہ حضرات کے لیے شہادت کی خصوصیت، حتی کہ اگر کوئی شیعہ اپنے بستر پر طبعی موت مرے تو وہ بھی شہید ہوگا اور جو غیر شیعہ کفار کے ساتھ اللہ کے راستہ
[1] السنۃ و مکانتہا فی التشریع الإسلامی ص (10)۔ [2] مسألۃ التقریب (2/198)۔ [3] مسألۃ التقریب (2/198)۔ [4] مسألۃ التقریب (2/201)۔