کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1165
کچھ اور ہوتی ہیں، یہ لوگ ایسے محقق کو متعصب گردانتے ہیں اور اسے فریقین کو قریب کرنے کی مصلحانہ کوششوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سے متہم کرتے ہیں۔ جب کہ عبدالحسین شرف الدین جیسے لوگوں کی صرف وہ ایک کتاب جو کہ عظیم ترین، جلیل القدر اور اہل سنت کے نزدیک روایات میں ثقاہت کے امین صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع سے پُر ہے، کو یہ تہمت گر اور ناراض ہونے والے لوگ شیعہ سنی اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نہیں جانتے۔ تشنیع صحابہ کے بارے میں مثال کے لیے صرف ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھی گئی مذکورہ کتاب پر بس نہیں ہے بلکہ عراق اور ایران میں تشنیع صحابہ پر مشتمل ایسی ایسی کتب طبع ہو کر منظر عام پر آرہی ہیں کہ کوئی بھی زندہ دل اور غیرت مند انسان انھیں سننے کی تاب نہیں لاسکتا اوریہ ایسی چیزیں ہیں جو انتشار و اختلاف کی آگ کو نئے سرے سے بھڑکاتی ہیں۔[1] چہ جائے کہ اس سے اتحاد ہو۔
یہ ہیں ڈاکٹر محمد مصطفی السباعی رحمۃ اللہ علیہ کے تجربات اور ان کاوشوں کا خلاصہ جو شیعہ علماء و مشائخ کے تعصب اور خیرالقرون کی چیدہ و نامور نسل کے تئیں بدستور ان کی عداوت اور زبان درازی کے سامنے ناکام ہوگئیں۔[2]
رافضی نظریہ کے مطابق شیعہ سنی اتحاد کا مطلب گویا اب یہ ہوگیا ہے کہ انھیں سنی ممالک یا سنی اکثریت علاقوں میں اپنے عقائد کی نشر و اشاعت کے لیے میدان خالی کردیا جائے اور وہ برابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کوستے اور ان پر زبان درازیاں کرتے رہیں اور اہل سنت حق کہنے کے لیے زبان بھی نہ کھولیں، یہ روافض جب بھی دیکھتے ہیں کہ حق کا بول بالا ہو رہا ہے تو ان کی بے چینی بڑھ جاتی ہے اوریہی ہنگامہ بپا کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اتحاد اس وقت خطرے میں ہے۔[3]
شیخ موسيٰ جار اللّٰہ کا تجربہ:
آپ رحمۃ اللہ علیہ روس کے ایک جلیل القدر عالم دین تھے۔ آپ کا نام موسیٰ بن جار اللہ ترکستانی قازانی ہے۔ آپ قیصری دور کے خاتمہ اور سوویت یونین کی ابتدائی ایام حکومت میں تیس ملین سے زائد روسی مسلمانوں کی واحد اور فیصلہ کن آواز تھے، جب روس کی سرزمین پر کمیونزم کی تیز آندھی چلی تو آپ بھی اس کی زد میں آگئے اور اس نے آپ کو اپنے گھر اور وطن سے دور لاپھینکا، آپ کی متعدد تالیفات اور رسائل ہیں۔ آپ ہجرت کی زندگی لے کر ہندوستان، حجاز، مصر، عراق اور ایران میں منتقل ہوتے رہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اگر میں چاہتا تو روسی حکومت کا سکریٹری اوّل ہوتا اور صف اوّل کا زعیم و قائد ہوتا بشرطیکہ میں اپنے دین و ایمان کو الوداع کہہ دیتا، لیکن میں نے ایسا نہ کیا بلکہ دنیا کے بالمقابل آخرت خریدنے کو ترجیح دی۔‘‘[4]
اس جلیل القدر عالم نے یہ کوشش کی تھی کہ امت مسلمہ کا انتشار ختم کرکے شیعہ سنی اتحاد کی فضا قائم کی جائے، اور اس سلسلہ میں اپنی پوری طاقت لگائی۔ شیعہ مذہب کی کتب کا بنظر غائر اور پورے اہتمام سے مطالعہ کیا۔ آپ
[1] مسألۃ التقریب ص (9)۔
[2] مسألۃ التقریب ص (10)۔
[3] مسألۃ التقریب ص (9-10)۔
[4] مسألۃ التقریب ص (9-10)۔