کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1164
فریقین کو ایک دوسرے سے قریب کریں، ایسی کوئی تحریر یا کتاب نہ طبع ہو جس سے کسی بھی فریق کے جذبات کو ٹھیس پہنچے یا غصہ آئے۔ چنانچہ اپنے اس نظریہ کے مطابق ڈاکٹر صاحب نے اپنے وقت کے اہم مرجع شیعہ اور اسلامی اتحاد، مسلمانوں کی صف بندی اور مذاہب کے درمیان مفاہمت کی دعوت دینے والے سب سے بڑے عالم عبدالحسین شرف الدین الموسوی کی زیارت کی، پھر انتہائی پُراعتماد اور کافی جوش و خروش کے ساتھ ان کے سامنے اپنا موقف رکھتے ہوئے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اس مقصد کی خاطر شیعہ و سنی علماء کے درمیان ایک اسلامی کانفرنس منعقد کی جائے۔
اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے اس مقصد کو لے کر متعدد شیعہ سیاسی شخصیات، تاجران اور ادباء و اہل قلم کی بھی زیارت کی، اور ان رابطوں کے بعد آپ جن نتائج تک پہنچے تھے انھیں دیکھ کر انتہائی خوش اور مطمئن تھے، لیکن آپ کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ شیعہ قوم کے دلوں میں کیا اہداف و مقاصد پوشیدہ ہیں اور قربت و مفاہمت کی دعوت کے پیچھے ان کے کیا کیا منصوبے ہوتے ہیں؟ چنانچہ آپ کے بقول: کچھ ہی دنوں بعد میں یہ دیکھ کر انتہائی حیرت میں پڑگیا کہ وہی موسوی جو شیعہ سنی مفاہمت و قربت کے لیے سب سے زیادہ زندہ دل اور جوش و خروش والا مبلغ تھا اس نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی سیرت پر ایک کتاب لکھی، جو ان کے حق میں سب و شتم سے بھری ہوئی تھی اور اس میں یہاں تک ثابت کیا تھا کہ ابوہریرہ منافق اور کافر تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ جہنمی ہیں۔[1]
ڈاکٹر صاحب آگے کہتے ہیں کہ میں عبدالحسین کی بات اور تحریر کے موقف میں تضاد دیکھ کر دنگ رہ گیا اوراس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ موقف مفاہمت، ایک دوسرے کو قریب لانے اور ماضی کو بھلا دینے میں سچی رغبت پر دلالت نہیں کرتا۔[2] شیعہ سنی نظریۂ مفاہمت کے تئیں شیعہ علماء و مشائخ نے زیادہ سے زیادہ جو قدم آگے بڑھایا وہ اتنا کہ اجتماعات، کانفرنس اور مجالس میں مجمل طور سے مجاملت سے کام لیا، بقیہ اوقات میں ان میں بیشتر لوگ صحابہ کو گالیاں دینے، ان کے بارے میں بدظنی کرنے اور اپنے اسلاف کی کتب میں مروی روایات کے مطابق ان کے بارے میں عقیدہ رکھنے پر بدستور باقی رہے۔[3] یہ لوگ خود نظریہ مفاہمت و تقریب کی آواز لگاتے ہیں لیکن عراق و ایران کے علمائے شیعہ میں اس کا کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آتا، پوری شیعہ قوم اپنی مذہبی کتب کی تعلیم کے مطابق صحابہ کرام کے مابین واقع ہونے والے ماضی کے اختلافات کو لے کر انھیں جارحانہ طعن و تشنیع کا نشانہ بناتی ہیں اور ان کی جھوٹی تصویر کشی کرتی ہیں، گویا نظریۂ مفاہمت کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت شیعہ مذہب کے قریب آئیں۔[4]
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ سنت کی پوری تاریخ یا ملت اسلامیہ کی کوئی بھی علمی تحقیق جو شیعہ نقطۂ نظر کے موافق نہ ہو تو ان کا کوئی نہ کوئی عالم اس محقق پر تنقید و اعتراض ضرور کرے گا، باہمی قوت و مفاہمت کے پس پردہ ان کی نیتیں
[1] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/1478)۔
[2] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/1478)۔
[3] منہاج السنۃ (3/243، 245)۔
[4] مسألۃ التقریب (2/280)۔