کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1162
’’خطبائ، ائمہ اورحفاظ قرآن مار ڈالے گئے اور کئی ماہ تک بغداد کی مسجدیں جمعہ، جماعت اور دیگر نمازوں سے ویران رہیں۔‘‘[1] ابن العلقمی کا ہدف یہ تھا کہ سنت اور اہل سنت کا مکمل صفایا ہو جائے اور رافضی بدعت کو غلبہ مل جائے اور روافض کی ایک بڑی مذہبی درس گاہ قائم ہو کہ جس کے ذریعہ سے وہ اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کرسکے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے یہ موقع نہ دیا۔ اپنی عطاکردہ نعمت کو اس سے چھین لیا اور اس حادثہ کے چند ہی مہینوں بعد اس کی عمر گھٹا دی اور اس کے پیچھے اس کے بیٹے کو بھی ہلاک کردیا۔[2] 2۔صفوی حکومت: صفوی دور حکومت میں کہ جس کا موسس اوّل اسماعیل صفوی ہے، اثنا عشری شیعہ عقائد ایرانی باشندوں پر زبردستی تھوپے گئے اور شیعیت کو ایران کا حکومتی مذہب قرار دیا گیا۔ شاہ اسماعیل صفوی اتنا سنگ دل اور سنی مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا کہ شاید آپ اس کی تصدیق نہ کریں۔[3] اپنے بارے میں وہ یہ بات عام کرتا تھا کہ وہ معصوم ہے، اس کے اور مہدی کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، اس کی ہر نقل و حرکت بارہ اماموں کے اوامر کے مطابق ہو رہی ہے۔[4] اس نے اہل سنت کے خلاف ہمیشہ اپنی تلوار کو بے نیام رکھا، تینوں خلفائے راشدین کو سب و شتم کرنا، ایرانیوں کے امتحان کا ذریعہ بنائے ہوئے تھا، اس نے یہ عام فرمان جاری کیا تھا کہ سڑکوں، بازاروں اور مساجد کے منبروں سے تینوں خلفائے راشدین پر سب و شتم کا مظاہرہ ہو اور جو اس سے بغاوت کریں انھیں اپنی گردن زدنی کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ شخص جب کسی شہر پر قابض ہوتا تو ہتھیاروں کی نوک پر وہاں کے لوگوں کو رافضیت کے لیے مجبور کردیتا۔[5] روافض علما و مشائخ نے نہلے پر دہلے کا کام کرتے ہوئے صفوی ارباب حکومت کی اس موقف میں بھرپور تائید کی اور اسلحہ اور ہتھیاروں کے زور پر مسلمانان ایران کو رافضیت قبول کرنے پر مجبور کیا۔ ان علماء و مشائخ میں علی الکرکی[6] کا نام سب سے نمایاں ہے، جسے روافض حضرات محقق ثانی کا لقب دیتے ہیں اور جسے شاہ اسماعیل کے بیٹے شاہ طہماسپ نے اپنا سب سے قریبی مشیر اورحکومتی سطح پر ایسا درجہ دے رکھا تھا کہ جس کی ہر بات واجب العمل ہوتی تھی۔ صفوی دور حکومت کے نمایاں علماء میں مجلسی کا نام بھی آتا ہے، جو کہ ایرانی مسلمانوں پر مذہبی اعتبار سے اثر انداز ہونے میں اقتدار کا شریک کار تھا، اس کے بارے میں یہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی کتاب ’’حق الیقین‘‘ کی وجہ سے تقریباً ستر ہزار ایرانی سنی مسلمان شیعہ بن گئے۔[7] لیکن یہ بات اہل تشیع کے غلو پر مبنی معلوم ہوتی ہے کیونکہ روافض کو ایران میں جو بھی اثر و رسوخ حاصل ہوا وہ صرف طاقت اور
[1] البدایۃ والنہایۃ (13/202)۔ [2] البدایۃ والنہایۃ (13/202)۔ [3] منہاج السنۃ (3/38)۔ [4] نصیر طوسی ہلاکو کے پاس تھا، ہلاکو نے جب الموت کے قلعوں کو اسماعیلوں کے ہاتھوں سے چھینا اور اس پر فتح حاصل کیا تو نصیر طوسی کو اپنے ساتھ رکھا تھا۔ [5] منہاج السنۃ (3/38)۔