کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1161
مستنصر کے زمانہ میں جہاں فوج کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی، وہ کم ہو کر صرف دس ہزار تک رہ گئی۔‘‘[1] دوسرا مرحلہ: … تاتاریوں سے خط و کتابت: ابن کثیر حمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’پھر اس نے تاتاریوں سے خط و کتابت کے ذریعہ سے ساز باز کی، انھیں ملک پر قابض ہوجانے کی لالچ دلائی، ان کے لیے راستہ ہموار کیا اور ملک کی اندرونی حالت اور حکومتی کارندوں کی کمزوری سے انھیں پوری طرح باخبر کردیا۔‘‘[2] تیسرا مرحلہ:… تاتاریوں کی مزاحمت سے روکنا اور خلیفہ اور اس کی رعایا کی ہمت توڑنا: چنانچہ اس نے عام ملکی باشندوں کو تاتاریوں کی مزاحمت سے روکا[3] اور خلیفہ، اس کے مشیروں اور ہم نشینوں کو اس دھوکا میں رکھا کہ تاتاری ان سے مصالحت کے خواہاں ہیں، بہتر ہوگا کہ خلیفہ ان سے خود ملاقات کریں تاکہ اس بات پر مصالحت ہو جائے کہ خراجِ عراق کی نصف آمدنی خلیفہ کو اور نصف تاتاریوں کو ملتی رہے گی، چنانچہ خلیفہ نے قاضیوں، فقہائ، امرا اور دیگر اعلیٰ عہدیداران و اعیان حکومت پر مشتمل سات سو لوگوں کے ہمراہ تاتاریوں سے ملاقات کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس حیلہ کے ذریعہ سے خلیفہ اور ان کے ہمراہ جانے والے دیگر قائدینِ حکومت و فوجی جرنیل بآسانی تاتاریوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ واضح رہے کہ سرداران روافض اور دیگر منافقینِ حکومت نے ہلاکو سے اشارتاً یہ بات کہہ دی تھی کہ وہ خلیفہ سے مصالحت نہ کرے گا اور وزیر ابن العلقمی نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر نصف نصف پر مصالحت ہو بھی جائے تو اسے سال دو سال سے زیادہ باقی نہ رکھنا، پھر پہلے جیسی صورت حال پیدا ہوجائے گی اور خلیفہ کے قتل کو مستحسن قرار دیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وزیر ابن العلقمی اور نصیر طوسی ہی نے خلیفہ کو قتل کردینے کا اشارہ کیا تھا۔[4] قتل خلیفہ کے بعد پورے ملک پر ہلہ بول کر جو بھی مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اورنوجوان ہاتھ آئے سب کو تہ تیغ کرتے گئے، صرف ذمی یہود و نصاریٰ یا جن لوگوں نے ان سے پناہ مانگ لی یا ابن العلقمی رافضی کے گھر میں پناہ لی وہی بچ سکے، اور کم وبیش تیرہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کرڈالا اوران کافر تاتاریوں نے جس طرح مسلمانوں کے خون بہائے اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انھوں نے ہاشمیوں کو چن چن کر قتل کیا اوران کی عباسی یا غیر عباسی خواتین کو قیدی بنا لیا، تو غور کا مقام ہے کہ جو شخص آل رسول اور دیگر تمام مسلمانوں کو قتل کرنے اور انھیں قیدی بنانے کے لیے ان پر کفار کو مسلط کردے کیا وہ ان کا عقیدت مند اور خیرخواہ ہوسکتا ہے۔[5] حافظ ابن کثیر کے بقول:
[1] مسألۃ التقریب (2/261، 278)۔ [2] منہاج السنۃ (2/104) اس کی واضح مثال افغان و عراق جنگ میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں شیعہ ملیشیا سنی مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے کے لیے یورپی استعمار (امریکہ اور اتحادی فوج) کا مکمل معاون ثابت ہوا اور اس کے شانہ بشانہ سنی مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتا رہا۔