کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1158
قسم! میں ان دونوں سے عقیدت رکھتا ہوں اوران دونوں کے لیے استغفار کرتا ہوں اور مجھے اہل بیت کے سارے لوگ ان سے عقیدت و محبت کرنے والے ہی ملے۔[1] 6۔زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’ ابوبکر شکرگزاروں کے امام تھے‘‘ پھر یہ آیت پڑھی: وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ ﴿١٤٤﴾ (آل عمران: 144)’’اللہ شکر گزار کو عنقریب بدلہ دے گا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تبرّا کرنا علی رضی اللہ عنہ سے تبرّا کرنے کے مترادف ہے۔[2] اب چاہو تو آگے بڑھو اور چاہو تو پیچھے جاؤ۔‘‘[3] 7۔جعفر بن محمد (الصادق رحمۃ اللہ علیہ ) نے فرمایا: عبدالجبار بن عباس الہمدانی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جعفر بن محمد الصادق ان کے پاس آئے، جب کہ وہ لوگ مدینہ سے سفر کرنے والے تھے، تو کہنے لگے: ان شاء اللہ آپ لوگ اپنے شہر کے نیک لوگوں میں سے ہو، لوگوں کو میری طرف سے بتا دینا کہ میرے بارے میں جن کا یہ عقیدہ ہو کہ میں امام معصوم ہوں اور میری اطاعت ان پر فرض ہے، تو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔[4] اور جس نے یہ گمان کیا کہ میں ابوبکر و عمر سے تبرّا کرتا ہوں تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ سالم بن ابوحفصہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوجعفر اور جعفر سے ابوبکر و عمر ( رضی اللہ عنہما ) کے بارے میں پوچھا، تو ابوجعفر نے فرمایا: اے سالم! ان دونوں سے عقیدت رکھ اور ان کے دشمنوں سے لاتعلق ہو جا۔ وہ دونوں ہدایت کے امام تھے، پھر جعفر نے کہا: اے سالم! کیا کوئی آدمی اپنے نانا کو گالی دے سکتا ہے؟ ابوبکر میرے نانا تھے، قیامت کے دن مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر میں ان دونوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے بے زار نہ رہوں۔[5] جعفر بن محمد ہی سے مروی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے: جس طرح مجھے شفاعت علی کی امید ہے اسی طرح ابوبکر سے بھی شفاعت کی امید ہے، انھوں نے مجھے دوبار جنا ہے۔[6] نیز آپ ہی سے مروی ہے کہ آپ سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: تم مجھ سے ان دو آدمیوں کے بارے میں پوچھتے ہو جو جنت کے پھل کھا چکے۔[7] اللہ بَری ہے اس آدمی سے جو ابوبکر و عمر
[1] الحلیۃ (3/137)۔ [2] سیر أعلام النبلاء (4/406)۔ [3] الاعتقاد / البیہقی ص (361)۔