کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1157
آپ ہی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس عراقیوں کی ایک جماعت آئی اور اس نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی شان میں کچھ نازیبا کلمات کہے، جب وہ لوگ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو آپ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا: کیا آپ لوگ مجھے بتا سکتے ہو کہ تمھی لوگ وہ اوّلین مہاجرین ہو جو اپنے گھروں اور مالوں سے بے دخل کیے گئے۔ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہے اور اللہ اور اس کے رسول کے مددگار رہے اور وہی سچے رہے۔ انھوں نے کہا: نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: تو کیا تمھی لوگ وہ ہو جن کے بارے میں (قرآن میں بیان) ہے کہ انھوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے، بلکہ خود اپنے اوپر انھیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔ (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے۔ انھوں نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان میں سے ہرگز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾ (الحشر:10) ’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب !یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ جاؤ یہاں سے نکل جاؤ، اللہ تمھیں غارت کرے۔[1] 5۔محمد بن علی الباقر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’بنو فاطمہ اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر و عمر کے بارے میں عمدہ ہی بات کہیں۔‘‘[2] آپ ہی سے مروی ہے کہ آپ نے جابر جعفی سے کہا: عراق میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے انھیں اس (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہنے) کا حکم دیا ہے، ان کو بتا دو کہ میں اللہ کے نزدیک ان سے اپنی براء ت کا اعلان کرتا ہوں، اوراللہ ان سے بَری ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر میں منصب خلافت پر بیٹھا تو ان کے خون کے ذریعہ سے اللہ کا تقرب چاہوں گا، اگر میں نے ان دونوں (ابوبکر و عمر) کے لیے استغفار نہیں کی اور دعائے رحمت نہیں کی تو مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو۔ اللہ کے دشمن ان دونوں کی عظمت سے ناواقف ہیں۔[3] بسّام صیرفی کا بیان ہے کہ میں نے ابوجعفر سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: اللہ کی
[1] الانتصار للصحب والآل ص (114)۔ [2] سیر أعلام النبلاء (3/263)۔ [3] حلیۃ الأولیاء (2/37)۔ [4] سیر أعلام النبلاء (4/302)۔ [5] سیر أعلام النبلاء (4/302)۔ [6] سیر أعلام النبلاء (4/390)۔