کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1156
آپ کی عقیدت و محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ نیز شیخین کی افضلیت کا اعتراف، ان دونوں پر آپ کو مقدم کرنے والے کو سزا کی دھمکی، عمر رضی اللہ عنہ کی طرح عمل کرتے ہوئے وفات پانے کی تمنا، ان سب باتوں سے علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اور روافض کے تئیں آپ کا شدید موقف نمایاں ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے اور دیگر اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راضی ہو جو پاکیزہ صفت انسان تھے اور روافض، خوارج اور دین سے نکل جانے والے بدعتیوں کی منسوب کردہ بدعات سے پاک تھے۔ آپ کے بعدآپ کے بیٹوں اور آپ کے اہل بیت نے عقیدۂ روافض سے اپنی بے زاری اور عقیدہ اہل سنت سے محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔[1] 2۔حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عمرو بن اصم کا بیان ہے کہ میں نے حسن سے کہا: شیعہ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قبل ازیں قیامت مبعوث کیے جائیں گے، آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! انھوں نے جھوٹ کہا، یہ شیعہ نہیں ہیں، اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ مبعوث کیے جائیں گے تو آپ کی بیویوں کو دوسروں کے عقد نکاح میں نہ دیتے اور نہ ان کا مال تقسیم کرتے۔[2] ابونعیم نے روایت کیا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ خلافت چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: عربوں کے سر میرے ہاتھ میں تھے، جس سے میں جنگ لڑتا وہ لڑتے، جس سے میں مصالحت کرتا وہ کرتے، لیکن اللہ کی رضا جوئی اور امت محمدیہ کو خون ریزی سے بچانے کی خاطر میں نے اسے چھوڑ دیا۔[3] 3۔حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: آپ عراق کے ان شیعہ لوگوں کے بارے میں کہا کرتے تھے جنھوں نے خط و کتابت کے ذریعہ سے آپ کو بلایا تھا اور مدد دینے کا وعدہ کیا تھا پھر آپ کو دشمنوں کے حوالہ کرکے سب بھاگ کھڑے ہوئے تھے: ’’اے اللہ! عراقیوں نے مجھے دھوکا دیا، میرے ساتھ بدعہدی کی، میرے بھائی کے ساتھ کیا کچھ کیا۔ اے اللہ! ان کے معاملہ کو خراب کردے اوران کو چن چن کر ہلاک کر۔‘‘[4] پھر انھیں کی غداری اور بدعہدی کے نتیجہ میں آپ اور آپ کے ساتھ دیگر اہل بیت شہید کردیے گئے اوریہ خائن لوگ آپ کاساتھ چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے، اس طرح آپ کی شہادت ایک جانکاہ حادثہ اور ایسا بڑا المیہ بن کر سامنے آئی جسے سن کر ہر مسلمان کا کلیجہ چاک ہونے لگتا ہے۔[5] 4۔علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’اے عراقیو! ہم سے اسلامی محبت کرو، بتوں کی طرح ہم سے محبت نہ کرو، تمھاری یہی محبت ہمارے ساتھ رہی یہاں تک کہ وہ عیب بن گئی۔‘‘ [6]
[1] التوحید/ ابن بابویہ ص (334)۔ [2] الانتصار للصحب و الآل ص (112)۔ [3] السنۃ / اللالکلائی (7/136، 1397)۔ [4] السنۃ / ابن أبی عاصم ص (561)۔ [5] صحیح البخاری حدیث نمبر (3685)۔