کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1154
’’اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔‘‘ اور فرمایا: الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿٢﴾ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ ﴿٣﴾ (الاعلی:2، 3) ’’وہ جس نے پیدا کیا، پس درست بنایا۔ اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر ہدایت کی ۔‘‘ ان تمام آیات میں ان روافض کی زبردست تردید ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حوادث کو وجود میں آنے سے پہلے نہیں جانتا اور وہ کسی چیز کا ایک بار حکم دیتا ہے پھر کسی مصلحت کے پیش نظر اس کے بارے میں اس کی رائے بدل جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے پوری مخلوق کو تخلیق کرنے سے پہلے اس کا مناسب اندازہ مقرر کردیا ہے، دنیا کی کوئی چیز اس کے اندازہ اور تدبیر سے باہر نہیں رہی اور نہ ہی مخلوقات کی تخلیق اور کائنات کے وجود سے پہلے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی کوئی چیز اس کے اندازہ سے تجاوز کرسکتی، لیکن ظالم ہیں کہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔[1] قرآن مجید کی طرح سنت رسول بھی اللہ تعالیٰ کے لیے دائمی صفتِ علم کا ثبوت پیش کرتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا اللّٰہُ، وَلَا یَعْلَمُ مَا فِی غَدٍ إِلَّا اللّٰہُ، وَ مَا یَعْلَمُ مَا تَغِیْضُ الْأَرْحَامُ إِلَّا اللّٰہُ، وَ لَا یَعْلَمُ مَتٰی یَاتِی الْمَطَرُ أَحًدٌ إِلَّا اللّٰہُ، وَ لَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ، وَ لَا یَعْلَمُ مَتٰی تَقُوْمُ السَّاعَۃُ۔)) [2] ’’غیب کی کنجیاں (خزانے) پانچ ہیں جنھیں صرف اللہ ہی جانتا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ رحم میں کیا ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب نازل ہوگی، اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا اور قیامت کب قائم ہوگی۔‘‘ اس حدیث میں جن چیزوں کا ذکر ہے وہ سب مستقبل میں ہونے والی ہیں اور حدیث بتاتی ہے کہ ان چیزوں کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ کو اس کا علم ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قَدَرَّ اللّٰہُ مَقَادِیْرُ الْخَلْقَ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرض بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَائِ۔)) [3] ’’اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو مقدر کردیا ہے درآں حالیکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ واضح رہے کہ اہل تشیع کی کتب میں اباطیل کے انبار میں کہیں کہیں ایسی بعض روایات بھی آگئی ہیں جن کا علمائے آل بیت سے قوی تعلق ہوسکتاہے، کیونکہ ان میں صحیح معنوں کی ترجمانی ہے اوران کی مشمولات ان پاکیزہ
[1] الفتاوٰی (2/211)۔