کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1152
ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ ﴿٣٥﴾ (یوسف: 35)
’’پھر اس کے بعد کہ وہ کئی نشانیاں دیکھ چکے، ان کے سامنے یہ بات آئی کہ اسے ایک وقت تک ضرور ہی قید کر دیں۔‘‘
پس یہ واضح ہے کہ ’’بدأ‘‘ اپنے دونوں معنوں میں علم سے پہلے جہالت، علم کے بعد جہالت طاری ہونے اور پھر ایک نئے علم کے حدوث کو مستلزم ہے اوریہ دونوں چیزیں اللہ کے لیے محال و ناممکن ہیں اور اللہ کے بارے میں ایسی بات کہنا بہت بڑا کفر ہے۔ پھر بھلا اثنا عشری شیعہ اسے سب سے عظیم عبادت کیسے کہتے ہیں؟ اور اسے عظمت الٰہی کے اعتراف کی سب سے بڑی دلیل کیسے تصور کرتے ہیں؟ اے اللہ تو اس سے پاک ہے یہ تو تجھ پر بہت بڑا بہتان ہے۔ [1]
یہ منکر معنی یہودیوں کی کتاب میں موجود ہے چنانچہ جیسے تورات کو یہودیوں نے اپنی مرضی کے مطابق تحریف کرڈالا ہے اس میں ایسی صریح عبارتیں ملتی ہیں جن میں عقیدہ ’’بدا‘‘ اللہ کی طرف منسوب ہے۔[2] اور یہیں سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً ابن سبا یہودی نے اس عقیدہ کو توریت سے لے کر اسلامی معاشرہ میں رواج دینا چاہا، جو کہ مسلم معاشرہ پر تشیع اور ولایت علی رضی اللہ عنہ کی دعوت لے کراثر انداز ہونے کی برابر کوشش کرتا رہا، کیونکہ تمام سبائی فرقے عقیدہ ’’بدائ‘‘ کے قائل ہیں اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے نئی نئی معلومات ظاہر ہوتی رہتی ہیں جو پہلے معلوم نہیں تھیں۔[3]
پھر یہ عقیدہ کیسانیوں اور مختار بن ابی عبید ثقفی کے پیروکار مختاریوں کی طرف منتقل ہوگیا، معلوم رہے کہ یہی وہ فرقہ ہے جس کے نام سے عقیدہ بداء کی شہرت ہوئی اور جس نے اس کا اہتمام کیا اور اسے عقیدہ کے طور سے لازم پکڑا۔[4]
چونکہ شیعہ مشائخ اپنے پیروکاروں کو شروع سے یہ اطمینان دلاتے تھے کہ آخری انجام انھیں کے ہاتھوں میں ہوگا اور حکومت انھیں کی ہوگی، حتیٰ کہ ایک روایت کے مطابق ابوجعفر کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس کی مدت بھی ستر (70) سال مقرر کردی، لیکن جب ستر سال گزر گئے اوران وعدوں میں سے کوئی چیز پوری نہ ہوئی تو پیروکاروں میں بے چینی بڑھی اورانھوں نے اس کی شکایت شروع کردی، تو صورت حال کو بھانپتے ہوئے موسسین مذہب نے اس پریشانی اور الجھن سے نکلنے کا یہ راستہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ کو نئی نئی رائے سمجھ میں آئی اور اس نے اس وعدہ کو بدل دیا۔[5] یعنی عقیدہ بداء کے ذریعہ سے اس سے چھٹکارا حاصل کیا۔
جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علم کے اثبات اور روافض کی طرف سے اس ذات مقدس کی طرف منسوب بداء کی تردید پر بے شمار قرآنی آیات موجود ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/1124)۔
[2] أصول الکافی (1/146)۔
[3] اصول الکافی (1/148)۔
[4] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (3/1133)۔
[5] القاموس المحیط (4/302)۔
[6] الصحاح (6/2278) لسان العرب (6/614)۔