کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1151
کسی کافر یا ظالم کو دھمکی سنائی تو قیامت کے دن کی دھمکی سنائی۔ اسی طرح یہ عقیدہ قرآنی آیات اور ان متواتر صریح احادیث کے خلاف ہے جن میں ہے کہ موت کے بعد قیامت سے پہلے دنیا میں کسی کو پلٹ کر نہیں آنا ہے۔[1] عقیدۂ بداء اثنا عشری عقائد کا ایک رکن ’’عقیدۂ بدائ‘‘ بھی ہے۔ اس عقیدہ کے بارے میں وہ اس قدر مبالغہ کے شکار ہیں کہتے ہیں:عقیدۂ بداء کی طرح کسی اور چیز کے ذریعہ سے اللہ کی عبادت ہی نہیں ہوئی اور نہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیزکے ذریعہ سے اس کی عظمت کا اعتراف ہوا۔[2] اور اگر لوگوں کو اس عقیدہ کا ثواب معلوم ہوجائے تو ایک لمحہ کے لیے بھی اس میں تاخیر نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء کو مبعوث کیا انھیں شراب کی حرمت اور اللہ کے بارے میں عقیدہ بداء کے ساتھ اللہ کے اقرار کا حکم دے کر مبعوث کیا۔[3] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اثنا عشری شیعہ میں جس شخص نے اس عقیدہ کی بنیاد ڈالی وہ انھیں کا شیخ الاسلام اور ثقۃ الاسلام الکلینی ہے، جس کی وفات 328ھ یا 329ھ میں ہوئی، کیونکہ اسی نے الکافی میں ’’قسم العقائد‘‘ کے کتاب التوحید کے ضمن میں اسے ذکر کیا ہے اور’’باب البدائ‘‘ کا عنوان قائم کرکے اس کے تحت ائمہ کی طرف منسوب سولہ احادیث ذکر کی ہیں۔[4] اگر آپ لفظ ’’بدائ‘‘ کی لغوی تحقیق کرنا چاہیں تو قاموس میں اسے بدأ، بدوّاً بداوۃً بمعنی ظہر پائیں گے، اور بدا لہ فی الامر بدوًا و بداء و بداۃً کو کسی نئی رائے کی تخلیق کے معنی میں پائیں گے۔[5] گویا لغت میں لفظ ’’بدائ‘‘ دو معنوں کے لیے مستعمل ہے: 1۔ کسی چیز کا پوشیدگی کے بعد ظاہر ہونا۔ ’’بدأ سور المدینۃ‘‘ کہا جاتاہے جب شہر کی فصیل اونچی ہو کر ظاہر ہو جائے۔ 2۔ ایک نئی رائے کا پیدا ہونا۔ فراء کہتے ہیں ’’بد الی بدأئ‘‘ کا مطلب ہے میرے سامنے ایک دوسری رائے ظاہر ہوئی اور جوہری کہتے ہیں بدألہ فی الامر بداء کا مطلب ہے اسے ایک نئی رائے سمجھ میں آئی۔[6] بہرحال یہ لفظ دونوں معنوں میں قرآن میں وارد ہے، پہلے معنی میں اللہ کا یہ فرمان ہے: وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ ۖ (البقرۃ:284) ’’اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھار ے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔‘‘ اور دوسرے معنی میں اللہ کا یہ فرمان ہے:
[1] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/1122)۔ [2] مسند الإمام أحمد (2/321) علامہ احمد شاکر نے کہا اس کی سند صحیح ہے۔