کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1149
أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ ﴿٣١﴾ (یٰسٓ: 31) ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا، ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانہ کے لوگ ہلاک کر دیے کہ بے شک وہ ان کی طرف پلٹ کر نہیں آتے۔‘‘ اور فرمایا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ ﴿٥٠﴾ (یٰس: 50) ’’پھر وہ نہ کسی وصیت کی طاقت رکھیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس آئیں گے۔‘‘ سورۂ انبیاء کی گزشتہ آیت نمبر (95) میں ’’لا یرجعون‘‘ میں ’’لا‘‘ زائد ہے۔ ’’حرام‘‘ سے مترشح نفی کے معنی میں تاکید پیدا کرنے کے لیے آیا ہے اور یہ اسلوب قرآن کا انتہائی دقیق و بدیعانہ اسلوب ہے اور لوٹنے کے بعد انجام کار سے آگاہ کرنے میں جو راز پوشیدہ ہے وہ یہ کہ ذہنی پریشانی میں مبتلا رہیں، رنج و افسوس کے شکار ہوں اوراپنی سب سے بڑی آرزو یعنی دنیوی زندگی کے فوت ہوجانے پر کف افسوس ملیں۔[1] پس مقصود آیت کریمہ سے ایسی رجعت کا اثبات ہے جس میں بروز قیامت سارے لوگ یقینا اللہ کے پاس آئیں گے۔[2] یہ ہرگز ناممکن ہے کہ بدلہ پانے کے لیے کوئی ہمارے پاس لوٹ کر نہ آئے۔[3] روافض شیعہ کا نظریہ ’’دنیا میں موت کے بعد رجعت‘‘ نص قرآنی کے صریح خلاف ہے اور قرآن مجید کی متعد د آیات کی روشنی میں یہ عقیدہ بالکل باطل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ﴿٩٩﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٠٠﴾ (المؤمنون:99، 100) ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! مجھے واپس بھیجو۔ تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔‘‘ پس آیت کریمہ کا آخری ٹکڑا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ عقیدۂ رجعت کی تردید پر صریح دلیل ہے۔ اور فرمایا: وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا
[1] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/1105)۔ [2] أوائل المقالات ص (51)۔ [3] أوائل المقالات ص (95)۔ [4] تفسیر القمی (2/76) صفحہ کے اوپر یہ عنوان ہے: أعظم دلیل علی الرجعۃ۔ (رجعت کی عظیم ترین دلیل ) [5] تفسیر ابن کثیر (3/205)۔