کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1148
سے قصاص لیا جائے، پھر ان پر سزا کی کارروائی ہوگی۔ مار، قتل اور پھانسی وغیرہ سزائیں دی جائیں گی۔
3۔ عام لوگاور ان میں بھی خاص طور سے وہ لوگ جو ایمان محض سے سرفراز رہے، یہ لوگ شیعہ ہوں گے، اس لیے کہ ایمان محض انھیں کو نصیب ہوا ہے، جیسا کہ ان کی روایات اور اقوالِ مشائخ کا اس پر اتفاق ہے، پھر وہ عام لوگ (اہل سنت) لوٹائے جائیں گے جو خالص کفر پر قائم رہے، یہ مستضعفین کے علاوہ تمام لوگ ہیں۔[1]
چنانچہ اسی تفصیل کی بنا پر رجعت کی تعریف کرتے ہوئے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قیامت سے پہلے بہت ساری اموات کا دنیا کی طرف پلٹ آنے کا نام رجعت ہے۔[2] اور موت کے بعد انھیں زندگی ملے گی اور وہ زندگی انھیں اشکال میں ہوگی جس میں وہ پہلے تھے۔[3]
یہ عقیدہ گھڑنے کے بعد اہل تشیع نے قرآن مجید کا رخ کیا، تاکہ عقیدہ رجعت کے ثبوت پر اس سے دلیل مہیا کرسکیں، لیکن جب اس کی کوئی صراحت قرآن میں نہ ملی تو اپنی عادت کے مطابق عقل پرستی اور تاویل باطنی کی طرف پلٹے، لہروں کی پشت پر سوار ہوئے اور اس راستہ میں خوب کھینچ تان سے کام لیا، یہاں تک کہ ان کا استدلال خود ان کے خلاف حجت بن گیا اور وہی ان کے عقیدہ کی تردید کی دلیل ٹھہری۔ یہاں چند ایسی آیات کی تفسیر بطور مثال ذکر کر رہا ہوں جنھیں ان کے شیخ المفسرین رجعت کی سب سے بڑی دلیل بتاتے ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ﴿٩٥﴾ (الانبیائ: 95)
’’اور لازم ہے اس بستی پر جسے ہم ہلاک کر دیں کہ بے شک وہ واپس نہیں لوٹیں گے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں شیعہ حضرات کے شیخ المفسرین کہتے ہیں:
’’یہ آیت عقیدہ ’’رجعت‘‘ کی سب سے بڑی دلیل ہے، اس لیے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس بات کا منکر نہیں ہے کہ دنیا کے سارے لوگ قیامت میں سے کوئی بھی اس بات کا منکر نہیں ہے کہ دنیا کے سارے لوگ قیامت کے دن وہاں لوٹ کر جائیں گے، خواہ وہ فوت ہو چکے ہوں یا فوت نہ ہوئے ہوں۔‘‘[4]
یہ آیت کریمہ خود ان کے خلاف حجت ہے، کیونکہ دنیا میں رجعت کی نفی کرتی ہے چنانچہ ابن عباس، ابوجعفر الباقر، قتادہ اور کئی ایک مفسرین نے اس کی تفسیر میں یہ تصریح کی ہے کہ گناہوں کے سبب ہلاک کی جانے والی بستیوں کے تمام لوگوں پر یہ حرام ہے کہ وہ قیامت سے پہلے دنیا کی طرف لوٹ کر آئیں۔[5] یہ تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے:
[1] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/1103)۔
[2] الاعتقاد ص (90)۔
[3] أوائل المقالات ص (51)۔
[4] مجمع البیان (5/52) الایقاظ من الہجعۃ ص (32)۔
[5] مجمع البیان (5/64) الایقاظ من الہجعۃ ص (64)۔
[6] القاموس (3/28) مجمع البحرین (4/334)۔
[7] روح المعانی (5/27) ضحی الإسلام /أمین أحمد (3/237)۔