کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1145
بعض بعض پر امیر ہیں۔ یہ اس امت پر اللہ کا اکرام و اعزاز ہے۔‘‘ صحیحین کی روایات خاص طور سے دو چیزوں پر دلالت کرتی ہیں: 1۔ آسمان سے عیسیٰ ابن مریم رحمۃ اللہ علیہم کے نزول کے وقت مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار خود انھیں میں کا کوئی آدمی ہوگا۔ 2۔ نماز کے لیے مسلمانوں کے ایسے امیر کا حاضر ہونا اور انھیں نماز پڑھانا، پھر نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت آپ سے یہ گزارش کرنا کہ وہی لوگوں کی امامت کریں، یہ ساری باتیں اس امیر کی اچھائی اور نیک طبعی کی دلیل ہیں۔ چنانچہ سنن اور مسانید وغیرہ میں ایسی احادیث وارد ہیں جو صحیحین کی ان احادیث کی تفسیر کرتی ہیں اور اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس نیک آدمی کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا اور اسے مہدی کہا جائے گا۔ اور احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ ٭ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مِنَّا الَّذِیْ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یُصَلِّیْ خَلْفَہٗ۔)) [1] ’’وہ ہمیں میں سے ہوگا جس کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم نماز پڑھیں گے۔‘‘ ٭ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((اَلْمَہْدِیْ مِنِّیْ، أَجْلَی الْجَبْہَۃِ، أَقْنَی الْأَنْفِ، یَمْلَاُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَ عَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَ جَوْرًا وَ یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِیْنَ۔)) [2] ’’مہدی مجھ ہی سے ہوگا (یعنی میری ہی نسل سے ہوگا) روشن اور خوبصورت چہرے والا ہوگا، جس کی پیشانی کشادہ ہوگی ، ناک اونچی ہوگی، وہ زمین کو ویسے ہی عدل وانصاف سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم و زیادتی سے بھر گئی ہوگی، وہ سات سال تک بادشاہت کرے گا۔‘‘ مختصر یہ کہ سنی مسلمانوں کے ’’مہدی منتظر‘‘ اور شیعہ لوگوں کے ’’مہدی منتظر‘‘ میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ دونوں میں کافی فرق ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ٭ سنی مسلمانوں کے مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہے، گویا اس کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور اس کے باپ کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کے نام کے موافق ہے، جب کہ راوفض شیعہ کے مہدی کا نام محمد بن الحسن العسکری ہے۔ ٭ سنی مسلمانوں کے نزدیک مہدی، حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہوں گے جب کہ روافض کے نزدیک وہ حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔ ٭ سنی مسلمانوں کے نزدیک مہدی کی ولادت اور ان کی زندگی کی مدت عام انسانوں کی طرح طبعی ہوگی،
[1] تعجب ہے: اگر یہ وقار کا لباس ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ہمیشہ کالا لباس ہی زیب تن فرماتے لیکن بات ایسی ہرگز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام جھنڈے کالے نہیں ہوا کرتے تھے کہ اس رنگ کو خصوصیت دی جاسکے۔ (مترجم) [2] النہایۃ / الفتن و الملاحم (1/31)۔ [3] صحیح البخاری / أحادیث الانبیاء ، فتح الباری (6/491)۔ [4] صحیح مسلم / الإیمان ، شرح النووی (2/193)۔