کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1144
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس سیاق میں مذکور خزانہ سے مراد کعبہ کا خزانہ ہے، اس کے حصول کے لیے اس کے پاس اولاد خلفاء میں سے تین اشخاص کے درمیان جنگ ہوگی، یہاں تک کہ آخری زمانہ آجائے گا تو مہدی علیہ السلام نکل پڑیں گے اور ان کا ظہور بلاد مشرق سے ہوگا نہ کہ سامرہ کی سرنگ سے جیسا کہ جاہل رافضیوں کا خیال ہے کہ وہ اب بھی وہاں موجود ہیں، اور یہ لوگ آخری زمانہ میں ان کے خروج کے منتظر ہیں۔ یہ ایک قسم کی بکواس اور بہت بڑی رسوائی اور شیطان کی جڑ ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل اور برہان نہیں ہے نہ تو اللہ کی کتاب میں نہ ہی سنت میں اور نہ ہی معقول صحیح اور استحسان کے اعتبار سے۔‘‘ نیز فرمایا: ’’اور ان کی تائید اہالیان مشرق میں سے کچھ لوگوں کے ذریعہ سے ہوگی، جو ان کے مددگار ہوں گے ان کی بادشاہت قائم کریں گے اور اس کے ستونوں کو مضبوط کریں گے اور ان کے جھنڈے بھی کالے ہوں گے اور یہ وقار کا لباس[1] ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا کالا تھا، جسے ’’عقاب‘‘ کہا جاتا تھا۔‘‘ مزید فرمایا: ’’مقصود یہ ہے کہ مہدی موعود جن کے وجود کا آخری زمانہ میں وعدہ ہے اصلاً ان کا ظہور و خروج مشرق کی جانب سے ہوگا اور ان سے بیعت خانہ کعبہ کے پاس ہوگی، جیسا کہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے۔‘‘[2] ٭ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ، وَ إِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔)) [3] ’’تم کیسے ہوگے جب عیسیٰ ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمھارا امام تمھیں میں سے ہوگا۔‘‘ ٭ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا: ((لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ أُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ قَالَ: فَیَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیَقُوْلُ أَمِیْرُہُمْ: صَلِّ بِنَا، فَیَقُوْلُ: لَا إِنَّ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضِ أُمَرَائُ، تَکْرِمُۃُ اللّٰہِ ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ۔)) [4] ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا، وہ قیامت تک ظاہر رہیں گے، فرمایا: پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے تو ان کا امیر کہے گا آئیے ہمیں نماز پڑھائیے، تو کہیں گے نہیں، تم میں سے
[1] المستدرک (4/557، 558) سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر (711) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے اور رجال ثقہ ہیں۔ [2] السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر (1529) البانی نے اس پر متواتر ہونے کا حکم لگایا ہے۔ [3] سنن ابن ماجہ (2/1367) مستدرک حاکم (4/464) کی یہ حدیث صحیح ہے شیخین کی شرط پر ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے، لیکن شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ضعیف و منکر قرار دیا ہے۔ دیکھئے: الضعیفۃ (85) و ضعیف ابن ماجہ (818)۔ (مترجم)