کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1141
امامت ان کے بھائیوں میں منتقل ہو۔[1] خود شیعہ کی کتب میں بھی ان کے مہدی منتظر کی ولادت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔[2]
ب: مہدی کے روپوش ہونے کا کوئی مطلب نہیں:
اگر ہم بفرض محال مہدی کی ولادت کو تسلیم ہی کرلیں تو اتنے طویل عرصہ تک سرنگ میں ان کے روپوش رہنے کا کوئی مطلب نہیں، چنانچہ روافض شیعہ سے جب بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ سرنگ میں ان کے روپوش رہنے اور خروج نہ کرنے میں کیا حکمت ہے؟ تو اس کی تعلیل و توجیہ میں یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ خود کو قتل کردیے جانے سے ڈر رہے ہیں۔[3] حالانکہ یہ ایک بے کار اور باطل تعلیل ہے کیونکہ شیعہ کتب میں ان کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے مدد یافتہ ہوں گے اور مشرق تا مغرب پوری روئے زمین کے مالک ہوں گے، زمین جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی اسی طرح اسے عدل و انصاف سے بھردیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام کے دور نزول تک زندہ رہیں گے۔[4] پس ان کی اس پُرعظمت اور عادلانہ کارروائی کی اہلیت کے بعد یہ کہنا کہ انھیں اپنی جان کا خطرہ ہے بالکل غلط ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہدی کا خروج اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ ظلم و جور اور فساد بپا کرنے والی حکومتوں کا خاتمہ نہ ہوجائے گا تاکہ ان کی جان محفوظ رہے۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب جابر و ظالم حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے گا تب ان کے نکلنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ اور جب یہ حکومتیں اس بات کی طاقت رکھتی ہیں کہ ان کے نکلنے پر ان کی جان کی حفاظت کرلیں گی تو پھر آپ کا خروج کیوں نہیں ہوتا؟ ظاہر بات ہے کہ جو شخص خود اپنی ذات کو قتل سے محفوظ نہ رکھ سکے تو وہ دوسروں کی حفاظت سے بدرجہ اولیٰ عاجز ہوگا کیونکہ یہ مثل مشہور ہے:
((فَاقِدُ الشَّْیِٔ لَا یُعْطِیْہِ۔))
’’جس کے پاس جو چیز نہ ہو وہ اسے دوسروں کو نہیں دے سکتا۔‘‘
لہٰذا اے اہل تشیع! جس کی اہلیت یہ ہو اس کے بارے میں کیا خیا ل ہے کہ وہ تمھارے دشمن کے خلاف تمھاری بھرپور مدد کرے گا اور تمھارے لیے دشمن سے بدلہ لے گا۔ پس یہ دعویٰ باطل ہے کہ وہ اپنی جان قتل کردیے جانے کے خوف سے باہر نہیں نکل رہے ہیں اور اسی بطلان و تردید سے وجود مہدی کا دعویٰ بھی باطل ہوجاتا ہے کیونکہ جان گنوانے کے خطرے کے علاوہ کوئی اور سبب نہیں ہے جو انھیں روپوش ہونے سے مانع رکھے۔ جیسا کہ شیخ الطائفہ طوسی کی تصریح ہے۔[5] پس یہ اللہ کی توفیق اور اس کا بڑا فضل و احسان ہے کہ وجود مہدی کا دعویٰ خود ان کے گھر کے علماء کی شہادت سے باطل ٹھہرا۔[6]
[1] بذل المجہود (1/237) معجم البلدان (3/173)۔
[2] المفید ص (ا346) کشف الغمۃ (2/446)۔
[3] مصابیح الجنات / محسن العصفور ص (255) ۔
[4] الغیبۃ ص (115) بذل المجہود (1/238)۔
[5] بذل المجہود (1/239)۔
[6] بحار الأنوار (52/291)۔
[7] بحار الأنوار (52/386)۔
[8] بحار الأنوار (52/355)۔
[9] الرجعۃ /احسائی ص (184)۔
[10] الغیبۃ ص (154)۔
[11] بذل المجہود 1/247)۔
[12] بذل المجہود (1/249)۔