کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1140
ہوئی اور 256ھ میں ’’سامرہ‘‘ کی سرنگ میں روپوش ہوگئے، آخری زمانہ میں ان کے نکلنے کا انتظار ہے تب وہ ان کے دشمنوں سے انتقام لیں گے اور اہل تشیع کی مدد کریں گے۔[1] روافض شیعہ آج تک مسلسل ’’سامرہ‘‘[2]سرنگ کی زیارت اور امام غائب سے نکلنے کی دعائیں کرتے چلے آرہے ہیں۔[3] لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روافض جس مہدی کے دعوے دار ہیں وہ اصلاً معدوم ہے، اس کا کوئی وجود ہی نہیں، چنانچہ جن حسن عسکری کی طرف یہ لوگ مہدی منتظر کو منسوب کرتے ہیں وہ حسن وفات پاچکے ہیں اور انھوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، ان کی میراث ان کی ماں اور بھائی جعفر کے درمیان تقسیم ہوئی ہے۔ مہدی منتظر کے عقیدہ نے روافض شیعہ کو ان خرافات اور دیو مالائی قصوں میں مبتلا کر رکھا ہے جنھیں کوئی عقل مند ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ یہ لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مہدی، حسین کی اولاد میں سے ہیں۔[4] ان کی ولادت کے بارے میں عجیب و غریب واقعات نقل کرتے ہیں۔[5] کہتے ہیں کہ جب وہ نکلیں گے تو پوری دنیا کے شیعہ ان کے پاس جمع ہوجائیں گے،[6] پھر وہ صحابہ کو ان کی قبروں سے نکال نکال کر انھیں عذاب دیں گے۔[7] عربوں کو اور خاص کر قریش کو قتل کریں گے۔[8] کعبہ، مسجد نبوی اور دیگر تمام مساجد کو ڈھا دیں گے۔[9] ایک نئے دین، نئی کتاب اور نئے حکم کی طرف سب کو دعوت دیں گے۔[10]اور یہودیوں کا تابوت لے کر شہروں اور ملکوں کو فتح کریں گے۔ [11]ان کے لیے دودھ اور پانی کے دو چشمے پھوٹ نکلیں گے، اس وقت ایک شیعہ کو چالیس آدمیوں کی طاقت ہوجائے گی۔ آپ ان کی قوت سماعت اور بصارت کو بڑھا دیں گے اور آل پاؤں کے فیصلہ کی طرح فیصلہ کریں گے۔ [12] تردید:…حالانکہ مہدی منتظر کے بارے میں یہ تمام تر رافضی عقائد بالکل باطل اور بے بنیاد ہیں اور اس کے بطلان کی چند وجوہات ہیں: ا: اسی مہدی کی ولادت کا کوئی ثبوت نہیں: چنانچہ اللہ واحد کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ ان کے گیارھویں امام حسن عسکری کی وفات اس طرح ہو کہ ان کے کوئی اولاد نہ ہو، چنانچہ روافض شیعہ کے لیے یہ بڑے ہی عار اور رسوائی کی بات ہوئی کہ کیسے امام مرجائے اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو، جو امامت میں اس کا خلیفہ بننے والا ہے، کیونکہ روافض شیعہ کا عقیدہ یہ تعیین اور تشریح کرتاہے کہ امام کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہی امام بن سکتا ہے اور یہ جائز نہیں کہ حسن اور حسین کے بعد
[1] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/995)۔ [2] العزلۃ و الخلطۃ/ سلمان بن فہد العودۃ ص (149)۔ [3] الإرشاد / المفید ص (363) کشف الغمۃ /الأربلی (2/437) بذل المجہود (1/237)۔