کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1139
کردے، اللہ اسے اس پر معذور سمجھے گا، لیکن منافق یا جھوٹے لوگ تو یہ کبھی بھی معذور نہ سمجھے جائیں گے۔ پھر وہ مومن جو بحالت مجبوری اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے کفار کے درمیان زندگی گزار رہا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے ایمانی تقاضہ کے مطابق کفار سے امانت، و صداقت اور خیر و خواہی کا برتاؤ کرے، اگرچہ ان کے دین کا موافق نہیں ہے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام باشندگان مصر کے درمیان رہتے تھے، اور وہ سب کفار تھے، نیز اسے چاہے کہ رافضی کے خلاف روش اختیار کرے، کہ جو اپنے مخالف کو ہر ممکن طریقہ سے جو اس کے بس میں ہوتا ہے زک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘[1] شیخ سلمان العودہ نے اہل سنت اور رافضہ کے درمیان ’’تقیہ‘‘ کے مفہوم میں متعدد فرق کو اختصار سے یوں پیش کیا ہے: ٭ ’’تقیہ‘‘ اہل سنت کے نزدیک ایک استثنائی اور وقتی چیز ہے اور وہ اصل کے خلاف ہے، جب کہ شیعہ کے نزدیک ایک واجبی چیز ہے، اور اس کا بجا لانا اس وقت تک فرض ہے جب تک کہ آل بیت کا امام غائب ظاہر نہ ہو جائے۔ ٭ اہل سنت کے نزدیک ’’تقیہ‘‘ کا سبب زائل ہوجانے کے بعد اس پر عمل بھی ختم ہوجاتا ہے، لیکن شیعہ کے نزدیک یہ ایک اجتماعی واجبی ذمہ داری ہے، جس پر ثابت قدم رہنا اس وقت تک ضروری ہے جب تک کہ ان کے مہدی موعود جنم نہ لیں گے۔ ٭ اہل سنت ’’تقیہ‘‘ کو ہمیشہ کفار کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار ظالموں اور فاسقوں کے لیے، لیکن شیعہ بنیادی طور سے اسے اپنے مخالف اہل سنت مسلمانوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ٭ تقیہ اہل سنت کے نزدیک ایک ناپسندیدہ اور غیر طبعی چیز ہے۔ وہ اسے بادلِ ناخواستہ اپناتے ہیں، لیکن شیعہ کے نزدیک یہ انتہائی پسندیدہ اور نیک عمل ہے، جس کی تعریف میں ان کے ائمہ کے بہت سارے اقوال موجود ہیں۔[2] مہدی منتظر، شیعہ و اہل سنت کے درمیان 1۔ مہدی منتظر کا عقیدہ شیعوں کے نزدیک: مہدی منتظر کا عقیدہ راوفض شیعہ کے ان نمایاں عقائد میں سے ہے جن سے ان کی کتب بھری پڑی ہیں، امامیہ روافض کے نزدیک مہدی منتظر سے مراد محمد بن حسن عسکری ہیں جو کہ ان کے بارھویں امام ہیں اور جنھیں وہ لوگ ’’حجت‘‘ اور ’’القائم‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔[3] ان کے عقیدہ کے مطابق 255ھ میں ان کی ولادت
[1] تفسیر ابن کثیر (1/371)۔ [2] فتح الباری (12/314)۔ [3] فتح الباری (12/317)۔ [4] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/979)۔ [5] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/981)۔