کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1138
بچاؤ کی خاطر بظاہر تعلق و رفاقت کا مظاہرہ کرسکتاہے، مگر قلبی طور سے نہیں۔[1] اہل علم کا اجماع ہے کہ اضطراری حالت میں تقیہ کے لیے رخصت ہے۔ ابن المنذر فرماتے ہیں: تمام علماء نے اجماع کیاہے کہ جو شخص کفر کے لیے مجبور کیا جائے حتیٰ کہ اسے اپنی جان کے قتل کردیے جانے کا خوف ہو، ایسی حالت میں وہ کفر کرلے، لیکن اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو، تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔[2] البتہ اگر وہ شخص اس مقام پر عزیمت کو ترجیح دے تویہ افضل ہے۔ ابن بطال نے فرمایا کہ علمائے اسلام کا اجماع ہے کہ جو شخص کفر کے لیے مجبور کیا گیا اوراس نے قتل کردیے جانے کو ترجیح دیا تو وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے اجر کا مستحق ہے۔[3]لیکن شیعہ قوم کے نزدیک تقیہ رخصت نہیں بلکہ ان کے دین کا ایک اساسی رکن ہے۔[4]
دین اسلام میں جو کہ جہاد اور دعوت کا دین ہے، تقیہ کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کی روش یا اسلامی معاشرہ کی شناخت بن جائے، بلکہ یہ ایک وقتی اور انفرادی چیز ہے جو اضطراری حالت اور ہجرت کی بے بسی کے ساتھ مربوط ہے۔ جونہی وہ اضطراری حالت ختم ہوئی اس رخصت کی اجازت بھی ختم ہوئی۔ رہا شیعہ مذہب، تو یہ اس کے عنصر میں شامل ہے اور اس مذہب کی تعمیر میں اس کا کردار ہے، اس میں یہ ایک باقی رہنے والی اور ہمیشہ سب کے لیے ایک اجتماعی روش ہے۔[5] اہل علم نے شیعہ کے حالات زندگی کے تجربات سے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا تقیہ جھوٹ اور نفاق سے عبارت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ تقیہ مساوی بہ نفاق اور تقیہ فی الاسلام میں فرق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایسا نہیں ہے کہ میں جھوٹ بولوں اور زبان سے وہ بات کہوں کہ میرے دل میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تو نفاق ہے، لیکن مجھے چاہیے کہ اتنا کروں جتنا میری طاقت ہے… ایک مومن جب کافروں اور فاجروں کے درمیان زندگی گزار رہا ہو اوراسے ان سے ہاتھ سے جہاد کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس پر ان سے جہاد کرنا واجب نہیں ہوگا، ہاں اگر زبان سے ممکن ہو تو جہاد کرے، ورنہ دل سے، لیکن وہ جھوٹ نہ بولے اورنہ زبان سے ایسی بات کہے جو اس کے دل میں نہ ہو، بلکہ یا تو اپنے دین کو ظاہر کرے یا اسے پوشیدہ رکھے، یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ ارد گرد کے کفار یا فجار کے پورے دین کی موافقت و تائید نہ کرے، بلکہ وہ آل فرعون کے مومن کی طرح زندگی گزارے کہ جس نے آل فرعون کے پورے دین کی موافقت اور تائید نہ کی تھی اور نہ جھوٹ بولا تھا، نہ اپنی زبان سے کوئی بات کہی تھی۔باطل دین کا اظہار ایک دوسری چیز ہے، جسے اللہ نے کبھی بھی جائز نہیں ٹھہرایا، فقط ایسے شخص کے لیے اس کی اجازت دی جو اس پر مجبور کردیا گیا، تو اسے یہ مہلت دی گئی کہ اپنی جان بچانے کی خاطر صرف زبان سے کلمۂ کفر کو ادا
[1] تفسیر الطبری (6/316)۔
[2] تفسیر قرطبی (4/57) فتح القدیر (1/331)۔
[3] تفسیر قرطبی (2/978)۔