کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1137
تقیہ اہل سنت کی نظر میں: اسلام میں تقیہ کا مفہوم زیادہ تر کفار کے ساتھ واقع ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ (آل عمران:28) ’’مگر یہ کہ تمھیں (ان کے شر سے) بچاؤ مقصود ہو۔‘‘ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں اللہ نے جس تقیہ کا ذکر کیا ہے یہ کفار کے ساتھ ہے نہ کہ ان کے علاوہ کسی کے ساتھ۔ ‘‘[1] چنانچہ اسی بناء پر بعض سلف کا خیال ہے کہ اب جب کہ اللہ نے اسلام کو باعزت غالب کردیا ہے تقیہ کی ضرورت نہیں رہی۔ معاذ بن جبل اور مجاہد فرماتے ہیں کہ شروع اسلام میں، مسلمانوں کی شوکت و قوت سے پہلے تقیہ تھا، لیکن آج اللہ نے مسلمانوں کو اس بات سے اوپر اٹھا دیا کہ وہ کفار سے تقیہ اختیار کریں۔[2] لیکن افسوس ہے کہ شیعہ قوم کا تقیہ مسلمانوں کے ساتھ ہے اور خاص طور سے اہل سنت کے ساتھ۔ حتیٰ کہ یہ لوگ فضیلت کی بشارت یافتہ صدیوں کو تقیہ کا دور شمار کرتے ہیں جیسا کہ ان کے شیخ مفید نے ثابت کیا ہے اور جیسا کہ ائمہ کی طرف ان کے منسوب کردہ اقوال سے یہ بات مترشح ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ اہل سنت کو یہود و نصاریٰ سے بڑا کافر شمار کرتے ہیں، کیونکہ بارہ اماموں کی امامت کا منکر ان کے نزدیک منکر نبوت سے بڑا مجرم ہے۔[3] صحیح بات یہ ہے کہ اضطراری حالات میں تقیہ کا مذکورہ شرعی مفہوم ایک رخصت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کفار کی دوستی کی ممانعت کے اصول سے اسے مستثنیٰ ٹھہرایا ہے اور فرمایا: لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ﴿٢٨﴾ (آل عمران:28) ’’ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔‘‘ پس اس آیت میں اللہ نے کفار کی دوستی سے منع کیا اور اس پر سخت ترین وعید سنائی کہ جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں، یعنی جو شخص اللہ کے ممنوعہ حکم کا مرتکب ہوگا اللہ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں، پھر فرمایا: مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو، یعنی ہاں بعض اوقات، یا مقامات پر اگر ان کے شر کا خطرہ ہو تو اپنے
[1] الاستبصار (4/154)۔ [2] بحار الأنوار (2/252)۔ [3] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/989)۔ [4] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/989)۔ [5] الحدائق الناظرۃ /یوسف البحرانی (1/5)۔ [6] الحدائق الناظرۃ / یوسف البحرانی (1/5)۔