کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1136
بھی عورت کی حیثیت حاصل ہوگی کہ وہ اس کی کسی چیز کا وارث نہیں بنے گا؟ تو آپ نے فرمایا: مرد اپنی بیوی کا اور بیوی اپنے شوہر کی، دونوں ایک دوسرے کی چھوڑی ہوئی چیز کے وارث ہو سکتے ہیں۔ تو طوسی نے کہا: ہم اسے تقیہ پر محمول کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے تمام مخالفین اس مسئلہ میں ہمارے خلاف ہیں، عامہ ’’(اہل سنت) میں سے کوئی بھی اس مسئلہ میں ہمارا موافق نہیں اور جو اس طرح کے مسائل ہوں ان میں تقیہ کرنا جائز ہے۔[1]
شیعہ کو دیگر مسلمانوں سے الگ کرنا:
’’تقیہ‘‘ کو عام کرنے کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ شیعہ حضرات کو عام مسلمانوں سے الگ کرکے ان کی مستقل اپنی شناخت قائم ہو، اسی لیے اسی انداز پر ان کی روایات بھی وارد ہیں، ان کے امام ابوعبداللہ فرماتے ہیں:
’’میری جو بات لوگوں کی بات کے مشابہ سنو، تو جان لو کہ اس میں تقیہ ہے اور میری جو بات لوگوں کے قول کے مشابہ نہ ہو تو جان لو کہ اس میں تقیہ نہیں ہے۔‘‘[2]
بہرحال اس قوم نے اگرچہ عقیدہ تقیہ کو اپنے لیے لازم کرلیا، لیکن اس کا ایک انتہائی برا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ خود شیعہ قوم اپنے ائمہ کے حقیقی مذہب کی معرفت سے ہاتھ دھو بیٹھی اور اس کے بڑے بڑے مشائخ تک کو یہ معلوم نہیں رہا کہ ان ائمہ کے اقوال میں کون سا قول تقیہ ہے اور کون سا قول حقیقی ہے۔[3] اور انھوں نے اپنے لیے ایک میزان و معیار قائم بھی کیا تو اس نے شیعہ مذہب کو غلو کے دائرہ تک پہنچا دیا، وہ میزان یہ کہ عامہ (اہل سنت) کی مخالفت ہی میں رشد و ہدایت ہے۔[4]
’’الحدائق الناضرۃ‘‘ کے مصنف نے اعتراف کیا ہے کہ تقیہ کی وجہ سے وہ اپنے دینی احکامات کو بہت کم جان سکے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ یقینی طور سے دین کے احکام کو نہیں جانا مگر تھوڑا ہی، کیونکہ دینی احکامات کی روایات تقیہ والی روایات میں گڈمڈ ہیں، اسی سچائی کا اعتراف ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب الکلینی کو بھی اپنی جامع الکافی میں ہے، حتیٰ کہ انھوں نے اخبار و روایات میں تعارض کے وقت مروی شدہ ترجیحات کا سہارا لیا ہے اور اس کی حقیقت کے علم کو ائمہ ابرار کے حوالہ کرکے ظاہر پر تسلیم و رضا کا اظہار کیا ہے۔[5]
چلتے چلتے یہ معلوم رہے کہ ان لوگوں کا تقیہ کو عملی جامہ پہنانا ہی اس بات کی بہترین شہادت ہے کہ ان کا تقیہ ناگہانی اور مجبوری کے حالات کے ساتھ مربوط نہیں ہے۔ یوسف البحرانی اس بات کے معترف ہیں کہ ائمہ کرام احکام کے درمیان متضاد و مخالف باتیں کرتے ہیں، اگرچہ ان کے پاس کوئی اور نہ بھی ہو، چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک ہی مسئلہ کے متعدد جوابات دیتے ہیں، اگرچہ مخالفین میں سے کوئی اس کا قائل نہ ہو۔[6]
[1] الاستبصار (1/65، 66)۔
[2] الاستبصار (1/65، 66)۔
[3] تہذیب الأحکام / طوسی (2/184)۔
[4] وسائل الشیعۃ (7/441)۔
[5] الاستبصار (4/151، 155)۔