کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1135
آپ کو سمجھنے کے لیے بس یہ کافی ہے کہ امام زید بن علی جو کہ اہل بیت کے ایک فرد ہیں، وہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جیسا کہ اثنا عشری شیعہ کی کتب میں موجود ہے کہ آپ نے وضو میں اپنے دونوں پاؤں کو دھویا، لیکن اس قوم کے شیخ الطائفہ اس حدیث کو نہیں مانتے اور اس کی تردید کے لیے تقیہ کے علاوہ کوئی حجت ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ ’’الاستبصار‘‘ میں اس حدیث کو بسند زید بن علی عن جدہ علی بن ابی طالب نقل کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں وضو کرنے کے لیے بیٹھا، جب میں نے وضو شروع کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگئے… پھر کہا: میں نے اپنے دونوں پاؤں کو دھویا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ((یَا عَلِیُّ خَلِّلْ بَیْنَ الْاَصَابِعِ وَلَا تُخَلِّلْ بِالنَّارِ۔))[1] ’’اے علی انگلیوں کے درمیان خلال کرلے اور آگ سے خلال نہ کر۔‘‘ آپ دیکھ رہے ہیں کہ شیعہ کتاب کے حوالہ سے علی رضی اللہ عنہ وضو میں اپنے پاؤں دھوتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں انگلیوں کے درمیان خلال کرنے پر زور دیا، لیکن شیعہ قوم نہ سنت رسول کی پابند ہے اور نہ طریقہ علی رضی اللہ عنہ کی اور نہ ہی اس طرح کی روایات پر یہ قوم توجہ دیتی ہے اگرچہ وہ ائمہ اہل بیت ہی کی روایات کیوں نہ ہوں اور انھیں کی کتب میں کیوں نہ وارد ہوں۔ اسی طرح شیعہ بزرگان و علماء نہ ان روایات پر غور کرتے ہیں اور نہ ان کی تحقیق کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک ایک دلیل تیار ہے جس کا نام ہے ’’تقیہ‘‘۔ اسی لیے طوسی کا کہنا ہے کہ یہ روایت عوام (یعنی اہل سنت) کے موافق ہے اور یہاں تقیہ کے طور سے وارد ہے، کیونکہ بلاشبہ ہمارے ائمہ کے مذہب میں ہے کہ دونوں پیروں پر مسح ہی کیا جائے گا۔ آگے لکھتا ہے کہ اس روایت کے سبھی راوی ’’عامہ‘‘ یعنی اہل سنت اور زیدیہ کے افراد ہیں اور جوان کا خاص مذہب ہو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔[2] نکاح کے باب میں ان کے یہاں تحریم متعہ کی روایات پائی جاتی ہیں، چنانچہ ان کی کتب میں بسند زید بن علی عن آبائہ عن علی رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کا گوشت اور نکاح متعہ حرام کردیا۔[3] ان کے شیخ الحر العاملی کہتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں کہ اسے شیخ (طوسی) وغیرہ نے تقیہ فی الروایہ پر محمول کیا ہے، اس لیے کہ متعہ کو مباح قرار دینا امامیہ مذہب کی ضروریات کا حصہ ہے۔‘‘[4] اسی طرح تقسیم میراث کے بارے میں اہل تشیع کا مسلک ہے کہ عورت کسی غیرمنقولہ جائداد مثلاً گھر اور زمین وغیرہ کی وارث نہیں ہوسکتی۔[5] لیکن جب ان کے ائمہ سے اس مسلک کے خلاف روایت آئی جو کہ ابویعقوب سے روایت ہے کہ میں نے ابوعبداللہ سے پوچھا: کیا مرد اپنی بیوی کے گھر یا زمین جیسی چیز کا وارث بن سکتا ہے؟ یا اسے
[1] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (2/985)۔ [2] أصول الکافی (1/65)۔ [3] شرح جامع /مازندرانی (1/65)۔