کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1134
ائمہ کی عصمت، سہو، خطا اور نسیان سے مبرّا ہونے کا عقیدہ:
ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ معصوم عن الخطا ہیں، ان سے سہو، خطا اور نسیان کا صدور نہیں ہوتا، حالانکہ یہ دعویٰ ان ائمہ کے احوال زندگی کے واقع کے خلاف ہے، حتیٰ کہ وہ شیعی روایات جو ان ائمہ کی طرف منسوب ہیں وہ خود ساختہ اور متناقض ہیں، شاید ہی کوئی ایسی روایت ملے جس کے مقابل میں کوئی معارض و متناقض روایت نہ ہو، جیسا کہ ان کے شیخ طوسی کو اس کا اعتراف ہے۔[1]
پس چونکہ یہ حقیقت عصمت ائمہ کے اصول کو یکسر مسترد کرتی تھی اس لیے تقیہ کو استعمال کیا تاکہ اس تناقض، اختلاف اورائمہ پر جھوٹ کا پردہ ڈالنے کا جواز مل سکے، چنانچہ مؤلف ’’الکافی‘‘ منصور بن حازم سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے ابوعبداللہ سے کہا: کیا بات ہے کہ جب میں آپ سے کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کرتا ہوں تو آپ مجھے ایک جواب دیتے ہیں، اور میرے علاوہ کوئی دوسرا آتا ہے تو اسے دوسرا جواب دیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ہم کمی اور زیادتی کے اعتبار سے لوگوں کو جواب دیتے ہیں۔[2]
الکافی کے شارح کا کہنا ہے: تقیہ کے وقت حکم میں زیادتی اور عدم تقیہ کے وقت کمی کا جواب میں خیال رکھا جاتا تھا یہ بھول چوک اور جہالت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے جواب میں اختلاف ان کے لیے زیادہ مناسب اور ان کے بقاء کے لیے نفع بخش ہے کیونکہ اگر ایک ہی جواب سب کے لیے ہوتا تو ان سب کا تشیع جان لیا جاتا اور یہ ان کے اور ائمہ کے قتل کا سبب بن جاتا۔[3]
ائمہ پر جھوٹوں کی غلط بیانی کے لیے راہ ہموار کرنا:
اس تقیہ کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ائمہ پر جھوٹ کی غلط بیانی کے لیے راہ ہموار کیا جائے اور اہل بیت کے حقیقی مذہب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ بایں طور کہ یہ لوگ یعنی تقیہ کے خالق اپنے پیروکاروں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ائمہ کے بارے میں ہم جو کچھ نقل کرتے ہیں یہی ان کا مذہب و عقیدہ رہا ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ان کے بارے میں مشہور ہے یا دیگر مسلمانوں کے سامنے ہم ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ ہمارا مذہب نہیں بلکہ تقیہ پر مبنی ہے۔
پس اس حیلہ کے ذریعہ سے ان ائمہ کے حقیقی اقوال سے کھیلنے، ان کی طرف غلط بات منسوب کرنے اور صحیح روایات کو جھٹلانے کا انھیں موقع مل جاتا ہے، چنانچہ آپ انھیں دیکھیں گے کہ وہ امام محمد الباقر، یا جعفرالصادق کے ان اقوال کو جن کو انھوں نے مجمع عام میں کہا ہوگا یا اسے عادل مسلمانوں نے نقل کیا ہوگا، یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ ان کے سامنے اہل سنت موجود تھے، اس لیے انھوں نے تقیہ کے طور سے یہ کہا تھا۔ اور پھر جابر جعفی جیسے جھوٹے کی نقل کی ہوئی روایات کو اس حجت کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں کہ وہاں کوئی اہل سنت موجود نہ تھا کہ تقیہ کی ضرورت پڑتی۔
[1] الأصول الأصیلہ/ عبداللہ شبر ص (324)۔
[2] الأصول الأصیلہ ص (323)۔
[3] بذل المجہود (2/637)۔
[4] أصول الکافی (2/217)۔
[5] أصول الکافی (2/221)۔
[6] أصول الکافی (2/369)۔
[7] بحار الأنوار (75/ 393 تا 443)۔
[8] أصول الشیعہ الإمامیۃ (2/984)۔
[9] دراسات عن الفرق و تاریخ المسلمین ص (217)۔