کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1133
’’جو تقیہ کا سب سے بڑا عالم ہو اور اپنے بھائیوں کے حقوق کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہو۔‘‘[1] نیز انھیں سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ہمارے شیعہ، افاضل ائمہ کے اخلاق کریمہ کا سب سے افضل حصہ تقیہ کا استعمال ہے۔‘‘[2] یہ ساری روایات بتاتی ہیں کہ شیعہ کے نزدیک تقیہ کی دینی حیثیت کیاہے اور ان کے مذہب میں اسے کتنا بلند مقام حاصل ہے، یہ ان کے اصول دین کا حصہ ہے، تقیہ کے بغیر کسی شیعہ کا ایمان صحیح نہیں ہوسکتا، اس کا چھوڑنے والا نماز چھوڑنے والے کی طرح گناہ گار ہوگا، بلکہ یہ تمام ارکان اسلام سے افضل ہے۔ دین کے دس حصوں میں نو حصہ تقیہ پر اور ایک حصہ دیگر ارکان اسلام اور فرائض دین پر قائم ہے۔[3]الکافی کے مؤلف نے اس سے متعلق روایات کو باب التقیہ،[4] باب الکتمان[5] اور باب الاذاعۃ[6] کے تحت ذکر کیا ہے۔ اور مجلسی نے بحار الانوار میں اس موضوع کی تقریباً ایک سو نو روایات ’’باب التقیہ و المدارۃ‘‘ کے تحت ذکر کی ہیں۔[7] 3: تقیہ میں مبالغہ پسندي کا سبب: اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقیہ کو اس قدر دینی اہمیت کیوں دی گئی؟ اور اس کے عوامل و اسباب کیا ہیں؟ چنانچہ اس کے اسباب کچھ اس طرح سمجھ میں آتے ہیں۔ خلفائے ثلاثہ کی امامت کے بطلان کا عقیدہ: روافض شیعہ علی رضی اللہ عنہ کے پیشرو تینوں خلفاء کی امامت کو باطل سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ جن لوگوں نے ان کے ہاتھوں پر بیعت کی سب کو کافروں میں شمار کرتے ہیں، حالانکہ علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان پر بیعت کی تھی اور ان کے پیچھے نماز پڑھی، ان کے ساتھ جہاد کیا اور اپنی بیٹی ام کلثوم کو عمر رضی اللہ عنہ کے عقد نکاح میں دیا، ابوبکر کے ساتھ جہاد پر نکلے اورجب خود منصب خلافت سنبھالا تو انھیں تینوں کی روش اپنائی، ابوبکر و عمر نے جو کچھ کیا تھا اس میں کوئی رد و بدل نہیں کیا۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کا اعتراف خود شیعہ مذہب کی کتب کو بھی ہے۔ پس ان حقائق کی موجودگی میں شیعہ مذہب کی عمارت زمیں بوس ہو رہی تھی پس اس تناقض سے نجات پانے کے لیے انھوں نے ’’تقیہ‘‘ کا عقیدہ ایجاد کیا۔[8] اور تقیہ کے اصول کو تاریخی واقعات کی تفسیر کے لیے استعمال کیا اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کا ابوبکر و عمر پر کسی اعتراض اور مظاہرے سے خاموشی کی وجہ تقیہ تھی اور حسن بن علی کا معاویہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہونے کی وجہ تقیہ تھی اور خود ہمارے ائمہ کا روپوش ہوجانا اور غائب رہنا ’’تقیہ‘‘ ہے۔اس طرح تمام ہی واقعات جو ان کے عقائد کے خلاف ہوں گے ان کی تفسیر وہ تقیہ کے ضمن میں کرسکتے ہیں۔[9]
[1] بذل المجہود (2/638)۔ [2] أصول الکافی (2/219) المحاسن ص (255)۔ [3] أصول الکافی (2/217) بذل المجہود (2/236)۔ [4] المحاسن / البرقی ص (257)۔ [5] أمالی الطوسی ص (287)۔ [6] الأصول الأصیلہ / عبداللہ شبّر ص (320)۔