کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1132
گھومتی ہیں وہ یہ ہیں: ٭ تقیہ کا معنی ہے کہ انسان دوسرے کے سامنے منہ سے کچھ کہے اور دل میں کچھ چھپائے۔ ٭ تقیہ صرف مخالفین کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اس عموم میں تمام مسلمان داخل ہیں۔ ٭ تقیہ کا تعلق مخالفین کے دینی و مذہبی امور سے ہوگا۔ ٭ تقیہ کا استعمال اس وقت کیا جائے جب عزت، جان یا مال پر خطرہ ہو۔ یہی چار احکام عقیدہ تقیہ کا محور ہیں۔[1] 2: تقیہ کی مذہبی حیثیت: شیعہ کے نزدیک تقیہ کا بڑا اونچا مقام و مرتبہ ہے اور ان کی امہات کتب میں اس کی فضیلت میں متعدد روایات وارد ہیں، چنانچہ کلینی وغیرہ نے جعفر الصادق سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’تقیہ میرے اور میرے آباء واجداد کے دین میں سے ہے، جس کے پاس تقیہ نہیں اس کے پاس ایمان نہیں۔‘‘[2] اور ابوعبداللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’دین کا دار و مدار تقیہ پر ہے۔ جس کے پاس تقیہ نہیں اس کے پاس دین نہیں، ہر چیز میں تقیہ ہے سوائے نبیذ اور موزوں پر مسح کے۔‘‘[3] اور المحاسن کے مؤلف کہتے ہیں: ’’حبیب بن بشیر سے روایت ہے کہ ابوعبداللہ نے فرمایا کہ نہیں، اللہ کی قسم! اس روئے زمین پر میرے نزدیک تقیہ سے محبوب کوئی چیز نہیں۔ اے حبیب! جس کے پاس تقیہ ہوگا اللہ اس کا درجہ بلند کرے گا، اے حبیب! جس کے پاس تقیہ نہیں ہوگا اللہ اسے پست کرے گا۔‘‘[4] امالی الطوسی میں جعفر الصادق سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: ’’جو شخص تقیہ کو لازم نہ پکڑے اور ہمیں رعایا کے پست درجہ لوگوں سے محفوظ نہ رکھے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘[5] اور ’’الاصول الاصیلہ‘‘ میں علی بن محمد سے پاؤں الصرمی کے مسائل میں ذکر ہے کہ پاؤں کہتے ہیں، انھوں نے مجھ سے کہا: اے پاؤں! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ تقیہ کا چھوڑنے والا نماز چھوڑنے والے کی طرح ہے تو میں سچا ہوں گا۔‘‘[6] اور باقر سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا:سب سے کامل انسان کون ہے؟ تو فرمایا:
[1] المحلی (1/26)۔ [2] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (1/398)۔ [3] أحمد (4/126)، ابن ماجہ (5، 43)، السنۃ ابن أبی عاصم (47، 48، 49) شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ [4] مسند أحمد (5/153)۔ [5] تصحیح الاعتقاد ص (115)۔ [6] الکشکول (1/202)۔ [7] کشف الأسرار ص (147)۔