کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1131
’’بے شک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور کھول کر بیان کر دیا تو یہ لوگ ہیں جن کی میں توبہ قبول کرتا ہوں اور میں ہی بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہوں۔‘‘ پس قرآنی صراحت کے مطابق دین ہر اعتبار سے پورا اور مکمل ہوچکا ہے، نہ اس میں کوئی زیادتی ہوسکتی ہے نہ کمی۔[1] خواہ وہ امام مزعوم کی طرف سے ہو، خواہ امام غائب منتظر کی جانب سے۔[2] نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا دین اپنے رب کے حکم کے مطابق دنیا والوں تک پہنچانے کے بعد اس دنیا کو الوادع کہا۔ فرمایا: ((تَرَکْتُکُمْ عَلٰی مِثْلِ الْبَیْضَائِ، لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا لَا یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْ اِلَّا ہَالِکٌ۔))[3] ’’میں نے تمہیں واضح شاہراہ پر چھوڑا ہے اس کی رات بھی اس کے دن کے مانند ہے، میرے بعد اس سے نہیں بھٹکے گا مگر ہلاک ہونے والا۔‘‘ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہوئے، درآں حالیکہ اگر کسی چڑیا نے آسمان میں اپنے پیر پھڑپھڑائے تو ہمیں اس سے علم کی راہ دکھائی۔‘‘[4] ’’تقیہ‘‘ شیعہ کی نظر میں 1: تعریف: روافض شیعہ کے نزدیک بقول علامہ مفید تقیہ کا مطلب ہے حق کو چھپانا اور اسے چھپانے کا عقیدہ رکھنا، نیز مخالفین کو اندھیرے میں رکھنا اور ان کی ایسی کھلی مخالفت سے گریز کرنا کہ جس سے دین یا دنیا کا کوئی نقصان پہنچے۔[5]اور بارھویں صدی ہجری کے ایک بڑے شیعہ عالم یوسف البحرانی کے نزدیک تقیہ سے مراد مخالفین کے خطرات سے بچنے کے لیے ان کے دینی معاملات میں ان کی موافقت کا مظاہرہ کرنا۔[6] ان کے امام خمینی کے نزدیک تقیہ کا معنی ہے کہ انسان اپنی جان، عزت، یا مال کی حفاظت کی خاطر کوئی خلاف واقع بات کہے، یا ایسا عمل کرے جو شرعی اصولوں کے خلاف ہو۔[7] تقیہ کے بارے میں تین مختلف ادوار میں روافض علمائے شیعہ کے تین بڑے علماء کی یہ تین تعریفیں ہیں اور یہ تینوں تعریفیں تقیہ کے چار بنیادی احکام کے گرد
[1] البدایۃ والنہایۃ (7/319)۔