کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1129
’’چونکہ اس کتاب کو قطب کا درجہ حاصل ہے کہ جس پر آج تک کے تمام اہل ضبط و اتقان اور معروف ثقہ راویوں کی روایات کا دار و مدار ہے، اور تمام اصول حدیث پر اسے افضلیت و برتری حاصل ہے اس لیے امامت کے قائلین اور جمہور شیعہ اس کتاب کو دیگر کتب پر فضیلت دینے، اسے ماننے، اس کی روایات کی تصدیق کرنے اور اس کے احکام کو کافی سمجھنے پر متفق ہیں اور اس بات پر اجماع ہے کہ اس کا درجہ بلند اور مقام نہایت عظیم الشان ہے۔‘‘ جب کہ معلوم رہے کہ ابوزہرہ کے بقول ’’الکافی‘‘ کی بیشتر روایات ان کے ائمہ تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں۔ اور ہمارا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی سند متصل ذکر کی گئی ہے اور نہ یہی دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ہیں۔ ہاں صرف اس کی ایک ہی شکل ہے کہ ان کے ائمہ کے اقوال کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مان لیا جائے اور کہا جائے کہ یہی اللہ کا دین ہے۔ الکافی کی بیشتر روایات امام صادق تک موقوف ہیں، ان میں کچھ ہی ایسی ہیں جن کی اسناد ان کے باپ باقر تک پہنچتی ہیں اور اس سے کم وہ روایات ہیں جو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہیں۔ شاذ و نادر ہی کوئی روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہوگی۔[1] اسی طرح اہل تشیع کی ایک مستند کتاب کا نام ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ ہے جسے ابوجعفر محمد بن علی بن موسیٰ بن بابویہ نے تالیف کیا ہے۔ یہ شیخ صدوق سے ملقب کیے جاتے ہیں اور ان کے بڑے خراسانی علماء میں سے ہیں، ان کی وفات 381ھ میں ہوئی۔ اسی طرح ’’تہذیب الأحکام‘‘ اور ’’الاستبصار فیما اختلف من الأخبار‘‘ بھی اہل تشیع کی دو مستند و معتبر کتب ہیں اور ان دونوں کے مولف محمد بن حسن الطوسی ہیں۔ یہ تمام شیعی کتب دسیوں ہزار ایسی احادیث پر مشتمل ہیں جن کی صحت کو ثابت کرنا ناممکن ہے، بلکہ ان میں بیشتر موضوع اور من گھڑت ہیں۔[2] جیسا کہ ہم ان احادیث کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جن پر انھوں نے اعتماد کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں استحقاق خلافت کا دعویٰ کیا ہے اور خود شیعہ یا ان کے بعض حضرات کو یہ اعتراف ہے کہ ان کتب میں موضوع روایات پائی جاتی ہیں اور خود انھیں لوگوں نے اپنے بعض راویوں پر جرح کی ہے۔ پس جب معاملہ اس طرح ہے تو شیعہ قوم کو علی رضی اللہ عنہ کی ان وصیتوں پر عمل کرنا چاہیے کہ اپنے دین کو لازم پکڑو، اپنے نبی کے طریقہ پر چلو اور اس کی سنت کا اتباع کرو، اپنے مشکل معاملات کو قرآن پر پیش کرو، پس قرآن جس کی تصدیق کرے اسے لازم پکڑلو اور جس کی تصدیق نہ کرے اسے چھوڑ دو۔[3] اور فرمایا: ’’اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی اقتدا کرو، بے شک وہی سب سے افضل طریقہ ہے اور آپ کی سنت
[1] سنۃ أہل البیت /محمد تقی الحکیم ص (90)۔ [2] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (1/377)۔ [3] أصول الکافی (1/192، 193)۔ [4] أصول الکافی (1/192، 193)۔ [5] أصول الشیعۃ (1/385)۔ [6] أصول الشیعۃ (1/385)۔ [7] أثر الإمامہ فی الفقہ الجعفری و أصولہ /سالوس ص (274، 275)۔