کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1128
شامل ہے اور ان کے اقوال کو قول الٰہی اور قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ حاصل ہے جس کا انھیں اعتراف بھی ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ بارہ ائمہ سے جو کچھ اقوال، افعال اور تقریرات صادر ہوئے ہیں، شیعہ امامیہ نے انھیں سنت شریفہ سے جوڑ دیا ہے۔[1] سنت کے تئیں ان کے مذکورہ نظریہ سے واقفیت کے بعد ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اس موقف کے پیچھے دو خطرناک مقاصد پوشیدہ ہیں اور ان کا یہ عقیدہ دو بنیادی اصولوں پر قائم ہے، جس کی وضاحت ان کے معاصر مشائخ میں سے ایک شیخ نے اس ضمن میں کی ہے کہ امام کا قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا درجہ رکھتا ہے، بایں طور کہ وہ اللہ کے بندوں پر حجت ہے اوراس کی اتباع واجب ہے اور یہ ائمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعینہٖ اس کے فیصلہ کے مطابق دنیا میں فیصلہ دیتے ہیں، گویا ان ائمہ کو یہ قدرت اور اختیارات دو ذرائع سے میسر ہوتے ہیں: دو الہام یعنی وحی کے ذریعہ سے کہ جس طرح نبی کو کسی چیز کا علم ہوتا ہے یا اپنے سے پیشرو معصوم سے اخذ کرکے۔[2]
شیعہ قوم کا خیال ہے کہ یہ بارہ ائمہ علم الٰہی اور وحی کے خازن ہیں، چنانچہ ’’الکافی‘‘ کے مصنف نے اسی عنوان سے ایک باب باندھا ہے: ’’باب اس بیان میں کہ ائمہ الٰہی کے حکمراں اور اس کے علم کے خازن ہیں۔‘‘[3] پھر اس باب کے ضمن میں اس معنی کی چھ روایات کو ذکر کیا ہے۔ اور دوسرا باب اس عنوان پر مشتمل ہے کہ ’’ائمہ، علم نبی اور گزشتہ تمام انبیاء و اوصیاء کے علوم کے وراث ہیں۔‘‘[4] پھر اس ضمن میں سات روایات ذکر کی ہیں۔ اور تیسرا باب اس عنوان پر مشتمل ہے کہ ’’ائمہ ان تمام علوم کے مالک ہیں جو ملائکہ، انبیاء اور تمام رسول علیہم السلام کو عطا کیے گئے۔‘‘[5] پھر اس ضمن میں چار روایات ذکر کی ہیں۔[6] بہرحال روافض کے مزعومہ مصادر کے انھیں چند حوالوں اور مثالوں پر میں اکتفا کرتا ہوں کیونکہ ان کے فساد اور بگاڑکو سمجھنے کے لیے بس ایک نظر ان پر ڈالنا اور تصور کرلینا کافی ہے۔ ورنہ روافض شیعہ نے اس باب میں بہت وسعت سے کام لیا ہے اور ائمہ کے بارے میں اسی تصور کی بنا پر روافض شیعہ نے صحت اسناد اور رجال سند پر بحث و تحقیق کا اس طرح اہتمام نہ کیا جس طرح اہل سنت محدثین نے کیا اور جہاں صحیح بخاری و صحیح مسلم جیسی مستند و معتمد کتب سنن کا انکار کیا وہیں دوسری طرف احادیث کے سلسلہ میں کلینی کی مرویات پر اعتماد کیا کہ جس کے کئی اقوال و مرویات کا ذکر ہم ان کے عقائد کے ضمن میں کرچکے ہیں اورجسے وہ حجت کی حیثیت دیتے ہیں۔’’الکافی‘‘ نام کی یہ کتاب اہل تشیع کے نزدیک حدیث کی سب سے قدیم اور ثقہ و معتبر مانی جاتی ہے۔[7] ایک شیعہ، اہل تشیع کے نزدیک اس کتاب کی اہمیت کو اس طرح بیان کرتا ہے:
[1] صحیح الکافی/ الیہودی (1/11) أصول الشیعۃ الإمامیۃ (1/373)۔
[2] الأصول العامۃ للفقہ المقارن (3/51) سنۃ أہل البیت/ محمد تقی الحکیم ص (122)۔
[3] أصول الشیعۃ الإمامیۃ (1/374)۔
[4] أصول الفقہ المقارن (3/51) أصول الشیعۃ (1/374)۔
[5] تاریخ الإمامیۃ / عبداللہ فیاض ص (140)۔