کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1126
مبتدع کی روایت کو قبول کیا کیونکہ وہ اور اس کی جماعت جھوٹ کو حلال نہیں سمجھتے۔[1] د: زندیق، فاسق، اپني بات کو نہ سمجھنے والے مُغَفَّل،ْ فہم و ضبط اور عدالت جیسے اوصاف سے محروم لوگ: علمائے حدیث نے اقسام حدیث سے صحیح، حسن اور ضعیف احادیث کی معرفت کے لیے قواعد وضع کیے، اسی طرح موضوع روایات کی معرفت کے لیے اصول بنائے اوراس کے لیے الفاظ کے بھونڈے پن، معنی کی خرابی، صریح قرآنی تصریحات اور عہد نبوی کے معروف تاریخی حقائق کی مخالفت وغیرہ کو علامت قرار دیا۔[2] اس طرح اللہ کی توفیق یافتہ ان کوششوں کے ذریعہ سے اسلامی شریعت کے دوسرے مصدر و مرجع یعنی سنت کے ستونوں کو استحکام ملا اور شریعت اپنے اصولوں پر باقی رہی اور مسلمان اپنے نبی کی حدیث پر مطمئن ہوئے، ہر دخل انداز اس سے دور بھگایا گیا۔ صحیح، حسن اور ضعیف میں تمیز کردی گئی اور اللہ نے اپنی شریعت مطہرہ کو زندیقوں کی سازش، دسیسہ کاروں کی چال اور مفسدین کے ہاتھوں کھلواڑ بننے سے محفوظ کرلیا اور مسلمانوں نے اس بابرکت و عظیم الشان کاوشوں کے پھلوں کو تدوین السنۃ، علم مصطلح الحدیث، علم الجرح و التعدیل اور دیگر علوم حدیث کی شکل میں توڑا۔[3] تکفیر صحابہ کی وجہ سے سنت کے بارے میں اہل تشیع کا موقف زیادہ تر صحابہ کرام کی تکفیر میں، مسئلہ امامت کے بارے میں شیعہ موقف کا خاصا اثر رہا اور اسی گھناؤنے منصوبۂ تکفیر کی وجہ سے اہل تشیع نے ان تمام روایات کا انکار کردیا جو صحابہ کرام سے مروی ہیں اور صرف انھی روایات کو قبول کیا جو ائمہ اہل بیت کی سند سے یا سلمان فارسی، عمار بن یاسر، ابوذر اور مقداد بن اسود جیسے صحابہ سے وارد ہوئیں کہ جنھیں ان لوگوں نے تشیع کی طرف منسوب کررکھا ہے اور ان کے بالمقابل ابوہریرہ، سمرہ بن جندب، عروہ بن زبیر، عمرو بن عاص اور مغیرہ بن شعبہ جیسے رواۃ حدیث پر زبردست حملہ کرتے ہوئے انھیں (معاذ اللہ) جھوٹ بولنے، جھوٹی احادیث گھڑنے اور دھوکا بازی کرنے سے متہم کیا ہے۔ [4] چنانچہ امام عبدالقاہر البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے شیعہ قوم کو منکرین سنت میں شمار کیا ہے کیونکہ انھوں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرویات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔[5] پس شیعہ قوم سنت کی مخالف ہے اور اہل سنت چونکہ سنت نبوی کے پیروکار ہیں اسی لیے انھیں اہل سنت کہا جاتا ہے۔[6] اہل سنت کی کتب مراجع و مصادر میں سنت اور اہل سنت کے بارے میں یہی تفصیل ملتی ہے، لیکن اہل تشیع سنت کے بارے میں اپنے ائمہ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ ہر چیز کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور ہر وہ حدیث جو اللہ کی کتاب کے موافق نہ ہو وہ خانہ ساز ہے۔[7]
[1] السنۃ و مکانتہا فی التشریع الإسلامی ص (91)۔ [2] السنۃ و مکانتہا فی التشریع الإسلامی ص (93)۔ [3] السنۃ و مکانتہا فی التشریع الإسلامی ص (93)۔