کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1125
جھوٹ اور قوی و ضعیف کے درمیان تمیز کرسکیں، اس راستہ میں انھیں بڑی آزمائشیں اٹھانا پڑیں، لیکن اللہ کی رضا کی راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر انھوں نے ان کی زندگی پر بحث کی، ان کی تاریخ حیات و ممات ٹٹولا، اور ان کی سیرت کو مختلف پہلوؤں سے چانچا اور پرکھا اور ظاہر و باطن کا جائزہ لیا۔[1] لیکن یہ سب کچھ یونہی نہیں کیا بلکہ اس کے لیے کچھ اصول و قواعد بنائے اورانھیں کی روشنی میں طے کیا کہ کس کی احادیث قبول کی جائیں اور کس کی نہیں، کس کی روایات لکھی جائیں اور کس کی نہیں، وہ مشہور لوگ جن کی روایت قابل قبول نہیں ہے ان میں چند یہ ہیں:
الف: رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم پر جھوٹ گھڑنے والے:
تمام علماء متفق ہیں کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھے اس کی حدیث قابل قبول نہیں ہے، یہ حرکت گناہ کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ ہے، ہاں اس عمل کی بنا پر وہ کافر ہوجائے گا یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اختلاف ہے، ایک گروہ نزدیک وہ کافر ہوجائے گا اور دوسرے کے نزدیک اسے قتل کرنا واجب ہوجائے گا، اسی طرح کیا اس کی توبہ قبول کی جائے گی یا نہیں، اس سلسلہ میں بھی اختلاف ہے۔
ب: اپني عام بول چال میں جھوٹ بولنے والے:
ایسے لوگوں نے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہ باندھا ہو تاہم علمائے سلف متفق ہیں کہ جس کے بارے میں جھوٹ بولنے کی عادت معلوم ہو اگرچہ وہ ایک ہی مرتبہ بولا ہو تو اس کی حدیث نہیں قبول کی جائے گی۔[2]
ج: اہل بدعت اور اہل اہوائ:
اسی طرح تمام ناقدین حدیث کا اتفا ق ہے کہ جس بدعتی کی بدعت اسے کفر تک لے جانے والی ہو، یا کفر تک نہ پہنچائے لیکن وہ بدعتی جھوٹ کو حلال سمجھتا ہو تو اس کی روایت قبول نہیں کی جائے گی، ہاں اگر وہ جھوٹ کو حلال نہ سمجھتا ہو تو کیا اس کی روایت قبول کی جائے گی یا نہیں؟ یا کہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والے اور دعوت نہ دینے والے کے درمیان فرق کیا جائے گا؟
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اس کے بارے میں قدیم و جدید ہر دور میں اختلاف رہا ہے، اکثریت جس بات کی قائل ہے وہ یہ کہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والے اور نہ دینے والے کے درمیان فرق کیا جائے۔ [3] اور جس نتیجہ تک میں پہنچا ہوں وہ یہ کہ اگر مبتدع کی روایت اس کی بدعت کے موافق ہے تو علمائے سلف اس کی روایت کو نہیں مانتے، اسی طرح اگر کسی ایسی جماعت کی طرف سے روایت ملے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ جھوٹ کو حلال سمجھتے ہیں اورانھوں نے اپنے اہواء کے راستہ میں احادیث وضع کی ہیں تو ان کی روایت بھی قبول نہیں کی جائے گی، اسی بنا پر انھوں نے روافض کی روایات قبول کرنے سے انکار کردیا اور عمران بن حطان جیسے
[1] مقدمۃ صحیح مسلم (1/10) یعنی جس طرح جانور بغیر پاؤں کے تھم نہیں سکتا ویسے ہی حدیث بغیر اسناد کے جم نہیں سکتی۔ (مترجم)