کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1124
انھی راویوں پر اعتماد کیا جن کی ثقاہت و عدالت پر مطمئن رہے۔ امام ابن سیرین کا بیان ہے کہ وہ صحابہ اسناد کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے لیکن جب فتنہ واقع ہوگیا تو کہنے لگے کہ اپنے راویوں کا نام بتاؤ، اگر راوی اہل سنت میں سے ہوتے تو ان کی احادیث قبول کرلی جاتیں اور اگر اہل بدعت سے ہوتے تو ان کی روایت نہ لی جاتی، واضح رہے کہ اس تحقیق و ثبوت طلبی کا آغاز ان صغار صحابہ کے دور سے ہوا جو فتنہ کے زمانہ سے کافی بعد میں فوت ہوئے۔ چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ بشیر العدوی ابن عباس کے پاس آئے اور حدیث بیان کرنے لگے، وہ کہتے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ادھر ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کی حدیث پر کان نہیں دھرتے اور نہ ہی ان کی طرف دیکھتے ہیں، وہ کہنے لگے: ابن عباس کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ میری حدیث نہیں سن رہے ہیں، میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور آپ سنتے نہیں؟ توابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک وقت تھا کہ جب ہم کسی کی زبان سے یہ کہتے ہوئے سنتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو ہماری نگاہیں اس کی طرف سبقت کرتیں اور ہم ہمہ تن بگوش ہوجاتے، لیکن جب لوگوں نے اچھا برا سب جمع کرنا شروع کردیا تو ہم صرف انھیں کو لینے لگے جنھیں پہچانتے ہیں اورجب تابعین کے دور میں جھوٹ اور عام ہوگیا تو انھوں نے اسناد کے مطالبہ پر اور زور دینا شروع کردیا۔ ابوالعالیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جب صحابہ کی حدیث سنتے تھے تو اس وقت تک ہمیں اطمینان نہیں ہوتا تھا جب تک کہ ان سے ملاقات کرکے ان سے اس حدیث کو براہ راست سن نہ لیتے اور ابن المبارک کا بیان ہے کہ ’’اسناد دین کا حصہ ہے، اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص اپنی مرضی سے جو چاہتا کہتا۔‘‘ نیز فرمایا: ہمارے اور قوم کے درمیان پائے یعنی اسناد ہیں۔ [1] (2) تحقیق طلبی: جرح و تنقید کے باب میں منظم لائحہ عمل کا دوسرا جزء یہ تھا کہ احادیث کے تئیں پختہ ثبوت حاصل کرنے کے لیے صحابہ، تابعین اور اس فن کے ائمہ کی طرف رجوع کرنے کا اہتمام کیا گیا اور سنت نبوی کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ کی یہ خصوصی عنایت رہی کہ اس نے بعض فقہاء و اقطاب صحابہ کی عمریں اتنی لمبی کردیں کہ وہ مرجع خلائق بن کر عرصہ دراز تک لوگوں کی ہدایت کا منار ثابت ہوئے اور جب جھوٹ کا چلن ہوا تو لوگ صداقت وحقیقت معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے انھیں کی طرف رجوع کرتے اور جو کچھ آثار و احادیث انھوں نے سنی ہوتیں ان کے بارے میں دریافت کرتے، اسی مقصد کی خاطر تابعین ہی نہیں بلکہ بعض صحابہ تک نے کئی کئی شہروں کا سفر کیا، تاکہ ثقہ راویوں کی زبانی ثابت و مروجہ احادیث کو سن سکیں، چنانچہ سماعِ حدیث کے لیے جابر بن عبداللہ نے شام اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم نے مصر کا سفر کیا۔ (3) راویوں کی تنقید اور صدق و کذب کی حیثیت سے ان کی زندگی پر تبصرہ: جرح و تنقید کے باب کا یہ بہت اہم جز ہے، یہیں سے ائمہ محدثین و علمائے فن اس نتیجہ تک پہنچے کہ صحیح اور
[1] صحیفۃ کاملۃ / زین العابدین ص (13) بحوالہ ثم أبصرت الحقیقۃ ص (329)۔ [2] السنۃ و مکانتہا فی التشریع الإسلامی ص (47)۔