کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1123
کہتے ہیں: ((رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِیْمَانِ۔)) یعنی اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ایمان کے ذریعہ سے ہم پر سبقت لے جاچکے ہیں اور ان لوگوں کو بھی مغفرت سے نواز دے جنھوں نے ان کی سمت چلنے کا ارادہ کیا اور ان کے منہج کو تلاش کیا اور جب ان کے راستہ پر انھیں کی طرح چل پڑے تو انھیں اپنی بصیرت میں کوئی شریک نظر نہیں آیا اور نہ ہی ان کے منار ہدایت کی اقتداء اور ان کی نقش قدم کی پیروی میں وہ کسی تردد اور شک کے شکار ہوئے، بلکہ یہ لوگ ان کی حفاظت و تائید میں لگے رہے، ان کے دین کے پیروکار اور ان کی ہدایت کے مقتدیٰ رہے، ان کے دفاع پر متفق رہے اورجو کچھ انھوں نے ان تک پہنچایا اس پر انھیں متہم نہیں کیا۔‘‘ [1] احادیث نبویہ کے بارے میں شیعہ کا موقف اصولین کی اصطلاح میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ، فعل یا تقریر کو سنت نبوی کہا جاتا ہے۔[2] علمائے اہل سنت نے سنت صحیحہ کی تدوین کا زبردست اہتمام کیا، جھوٹ اور جھوٹوں کے ہاتھوں سے اسے محفوظ کرنے کے لیے انھوں نے ایسی خدمات انجام دی ہیں کہ اب اس پر مزید کچھ کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور اس سلسلہ میں انھوں نے ایسے طریقہ اختیار کیے جو نقد وتحقیق کا سب سے صحیح علمی طریقہ ہوتا ہے، بلکہ ہم قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پوری روئے زمین پر بسنے والی تمام اقوام کے درمیان ہمارے ان علماء کو یہ شرف حاصل رہا کہ انھوں نے سب سے پہلے اخبار و مرویات کی دقیق علمی تنقید کے قواعد وضع کیے، اس باب میں ان کی جو کوششیں رہیں ان پر آنے والی نسلیں فخر کرتی رہیں گی اور دیگر امتوں پر اپنی برتری کا مظاہرہ کریں گی اور یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔ لہٰذا مختصراً عرض ہے کہ سنت نبویہ کو منظم سازشوں سے بچانے اور کیچڑ کی آلودگیوں سے انھیں پاک کرنے کے لیے علمائے اہل سنت نے جرح و تنقید کے باب میں مندرجہ ذیل لائحہ عمل تیار کیا۔ (1) اسناد حدیث: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک آپ کے صحابہ حدیث کے سلسلہ میں آپس میں ایک دوسرے پر شک نہیں کرتے تھے، اسی طرح حضرات تابعین بھی اگر کسی صحابی سے حدیث رسول روایت کرتے ہوئے سنتے تو اسے قبول کرنے میں قطعاً تردد نہ کرتے تھے، لیکن جب فتنہ واقع ہوگیا اور گمراہ یہودی عبداللہ بن سبا گناہوں میں لت پت اپنی اس خطرناک دعوت کو لے کر اٹھ کھڑا ہوا جسے الوہیت علی کے قائل غلوپسندی شیعی فکر نے اپنا لیا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ سنت مخالف تحریکیں زور پکڑتی گئیں تو صحابہ و تابعین علمائے احادیث قبول کرنے اور بیان کرنے میں احتیاط برتنے لگے اورانھی روایات کو قبول کیا جن کی اسناد کی اچھی طرح معرفت حاصل کرلی اور
[1] نہج البلاغۃ ص (182-189) مترجم اردو ص (288) ثم أبصرت الحقیقۃ ص (324)۔ [2] نہج البلاغۃ ص (235) مترجم اردو (336) ثم أبصرت الحقیقۃ ص (325)۔