کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1122
درخت تھرتھرا تے ہیں۔‘‘[1]
اور یہ وہی علی رضی اللہ عنہ ہیں جو ان صحابہ کی جدائی پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی موت پر ان کا ذکر خیر ایسے ہی چھیڑتے ہیں، جیسے کوئی شخص اپنے محبوب کا ذکرکرتا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’وہ لوگ کہاں ہیں جنھیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تو انھوں نے اسے قبول کرلیا اور قرآن کو پڑھا تو اس پر عمل بھی کیا، جہاد کے لیے انھیں ابھارا گیا تو اس طرح شوق سے بڑھے جیسے دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف، انھوں نے تلواروں کو نیاموں سے نکال لیا اور دستہ بدستہ اور صف بصف بڑھتے ہوئے زمین کے اطراف پر قابو پالیا، … رونے سے ان کی آنکھیں سفید، روزے سے ان کے پیٹ لاغر، دعاؤں سے ان کے ہونٹ خشک اور جاگنے سے ان کے رنگ زرد ہوگئے تھے اور فروتنی و عاجزی کرنے والوں کی طرح ان کے چہرے خاک آلود رہتے تھے، یہ میرے وہ بھائی تھے جو دنیا سے گزر گئے، اب ہم حق بجانب ہیں اگر ان کی دید کے پیاسے ہوں اور ان کے فراق میں اپنے ہاتھ چبا لیں۔‘‘ [2]
لہٰذا اے محبان علی رضی اللہ عنہ ! ذرا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں آپ کے نظریہ پر غور کرو۔
اور رہے امام علی بن حسین زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ تو آپ بھی اصحاب رسول کا ذکر خیر کرتے تھے اور اپنی نماز میں ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے تھے، کیونکہ توحید کی دعوت کو عام کرنے اورپیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچانے میں ان لوگوں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’مغفرت اور رضا مندی کے لیے تجھ سے ان کا ذکر کر رہا ہوں، اے اللہ! اور خاص طور سے اصحاب محمد کے حق میں کہ جنھوں نے عمدہ صحبت کا نمونہ پیش کیا اورجنھوں نے آپ کی نصرت وتائید میں اچھی قربانیاں دیں، آپ کو اپنی حفاطت میں رکھا، آپ کی میزبانی کرنے میں جلدی کی، آپ کی دعوت قبول کرنے میں سبقت لے گئے اور انھیں جہاں کہیں اپنی رسالت کی حجت انھیں سنائی انھوں نے قبول کی۔ آپ کے لائے ہوئے دین کے غلبہ و سربلندی کے لیے اہل و عیال کو خیرباد کہا، آپ کی نبوت کو مستحکم بنانے کے لیے اپنے آباء و اولاد سے جہاد کیا اور وہ صحابہ کہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مربوط ہوئے تو خاندان والوں نے انھیں چھوڑ دیا، اور جب وہ آپ کے رشتوں میں بندھے تو ان کی پرانی قرابت داریاں ان سے کٹ گئیں، اے اللہ! انھوں نے جو کچھ تیرے راستہ میں اور تیری رضا کی خاطر چھوڑا قبول فرما، اور انھیں اپنی رضا مندی عطا کرکے خوش کردے اور تیری رضا کی خاطر ان کی ہجرت اور تیرے دین کی تقویت کی خاطر خوش حالی پر تنگ حالی کی ترجیح کے بدلے انھیں اجر و ثواب سے نواز دے، پھر احسان کے ساتھ ان کا اتباع کرنے والوں کو اپنا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرما جو کہ ان کے حق میں یہ
[1] إرشاد البغی إلی مذہب أہل البیت فی صحب النبی ص (50، 64)۔
[2] البدایۃ والنہایۃ (9/349)۔
[3] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (2/851)۔