کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1121
٭ اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے کی حرمت پر بارہ طریقوں سے اہل بیت کا اجماع نقل کیا ہے۔[1] اور ابوعبداللہ بن محمد بن عبدالواحد المقدسی نے محمد بن علی بن حسین بن علی (محمد الباقر) سے اپنی اسناد سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے جابر جعفی سے کہا: اے جابر ہمیں خبر ملی ہے کہ عراق میں کچھ لوگ ہیں جن کا گمان ہے کہ انھیں ہم سے محبت ہے، حالانکہ وہ ابوبکر و عمر کی شان میں زبان درازی کرتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ ہم نے انھیں ایسا کرنے کا حکم دیاہے، تو تم انھیں میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ میں اللہ کے ہاں ان سے خود کو بری ٹھہراتا ہوں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر میں کبھی حکمراں بنایا گیا تو ان کے خون (یعنی گردن زدنی) کے ذریعہ سے اللہ کا ثواب حاصل کروں گا۔ مجھے محمد کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر میں ان دونوں کے لیے استغفار اور دعائے رحمت نہ کروں۔ بے شک اللہ کے دشمن ان دونوں کے فضل و مرتبہ سے لابلد ہیں، انھیں بتا دینا کہ میں ان سے اور ابوبکر و عمر سے تبرّا کرنے والوں سے بری ہوں۔[2] نیزآپ نے اپنی ہی سند سے عبداللہ بن حسن بن علی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں نے ابوبکر و عمر کو برا بھلا کہنے والے کسی آدمی کو نہیں دیکھا کہ اسے توبہ کرنے کا وقت میسر آیا ہوا ہو۔[3] (4) امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے بیٹوں کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بے پناہ محبت: کسی بھی چیز کی اصلیت کی حقیقی چمک دمک باقی رہتی ہے اور نقلی چیزوں کی چمک دمک ختم ہوجاتی ہے، اثنا عشری شیعہ کے نزدیک مستند اور معتبر ترین کتاب مانی جانے والی ’’نہج البلاغہ‘‘ میں اس کی واضح مثال موجود ہے، چنانچہ اس میں حقیقت بیانی پر مشتمل امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے ایسے اقوال موجود ہیں جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن و تشنیع، سب و شتم اور ان کے تئیں عقیدۂ ارتداد کے فسانہ کو باطل ٹھہرانے کے لیے کافی ہیں، چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے بذات خود اصحاب رسول کے بارے میں آنکھوں دیکھے حال کی منظر کشی اس طرح کی ہے: ’’مجھے تو تم میں سے ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو ان کے مثل ہو، وہ اس عالم میں صبح کرتے تھے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے خاک سے اٹے ہوئے تھے، جب کہ رات کو وہ سجود و قیام میں کاٹ چکے ہوتے تھے، اس عالم میں کہ کبھی پیشانیاں سجدہ میں رکھتے تھے اور کبھی رخسار اور حشر کی یاد سے اس طرح بے چین رہتے تھے کہ جیسے انگاروں پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور لمبے سجدوں کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) بکری کے گھٹنوں جیسے گٹے پڑے ہوئے تھے، جب بھی ان کے سامنے اللہ کا ذکر آجاتا تھا تو ان کی آنکھیں برس پڑتی تھیں، یہاں تک کہ ان کے گریبانوں کو بھگو دیتی تھیں، وہ سزا کے خوف اور ثواب کی امید میں اس طرح کانپتے رہتے تھے جس طرح تیز جھکڑ والے دن
[1] صحیح مسلم (4/1697 ،اور 1698)۔ [2] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (2/838)۔ [3] مناقب الإمام أحمد / ابن الجوزی ص (160)۔ [4] الکفایۃ فی علم الروایۃ ص (67)۔